یورپ میں کورونا وبا کی دوسری لہر اور بڑھتے کیسز نے کئی ممالک کو ایک اور معاشی شٹ ڈاؤن کی جانب دھکیل دیا ہے لیکن اس کے باوجود امید کی ایک کرن باقی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق جان لیوا وبا کی دوسری لہر سے اوسط جانی نقصان کم ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی پہلی لہر سے یورپی ممالک میں ریکارڈ اموات ہوئیں جبکہ دوسری لہر میں اموات کی شرح نسبتاً کم ہے۔
یورپین سینٹر فار ڈیزیز پریونشن اینڈ کنٹرول کے اعداد وشمار کے مطابق برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک میں کورونا کی دوسری لہر جس تیزی سے پھیلی، اس حساب سے شرح اموات میں اضافہ نہیں ہوا جو کہ خوش آئند بات ہے۔
ڈپارٹمنٹ آف پرائمری کیئر ہیلتھ سائنسز کے ایک رکن جیسن اوک کا کہنا تھا کہ جون سے اگست کے دوران شرح اموات میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اندازے کے مطابق کورونا کے دوسری لہر سے ہونے والی اموات کی شرح اس سے نہایت کم ہے جس سے ہم پہلے گزر چکے ہیں۔
جیسن اوک دیگر ماہرین کے ہمراہ سینٹر فار ایوی ڈینس بیسڈ میڈیسن میں کورونا کے باعث ہونے والی اموات کا جائزہ لے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں جون کے آخر تک شرح اموات تین فیصد سے کم تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اگست میں شرح اموات مزید کم ہو کر اعشاریہ پانچ فیصد ہو گئی تھی جب کہ موجودہ شرح اموات اعشاریہ پچھتر فیصد تک آگئی ہے۔
دوسری جانب نیویارک کے اسپتالوں میں داخل کورونا کے مریضوں کی شرح اموات میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران شرح اموات میں کمی کی ایک وجہ متاثرہ افراد کی عمر ہے۔
ماہرین کے مطابق کورونا کی پہلی لہر میں بڑی عمر کے افراد زیادہ متاثر ہوئے جس سے اموات بھی زیادہ ہوئیں۔
موسم گرما کے اختتام پر پھیلنے والی دوسری لہر نے زیادہ نوجوانوں کو متاثر کیا ہے جس سے شرح اموات میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق بڑی عمر کے افراد اگر کورونا سے متاثر ہوں تو ان کی صحت بگڑنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جب کہ نوجوان افراد قوت مدافعت زیادہ ہونے کے باعث وبا کا موثر طریقے سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔