ماہرین صحت اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا سورج کی دھوپ کو کورونا وائرس کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
اس سے قبل برطانیہ کے سیکرٹری برائے صحت اور سوشل کیئر میٹ ہین کاک نے سائنسدانوں سے درخواست کی تھی کہ وہ وٹامن ڈی کے کورونا پر اثرات کا مطالعہ کریں۔
کوین لینڈ یونیورسٹی آف لندن کے سائنسدانوں نے وٹامن ڈی کے استعمال کے لیے ٹرائل کا آغاز کر دیا ہے۔
یہ سائنسدان ابتدائی طور پر 5000 افراد کو وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس دیں گے جس سے وہ یہ نتائج اخذ کریں گے کہ موسم سرما میں وٹامن ڈی کورونا کے خلاف موثر ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں۔
سائنسدان اس بات کی تحقیق بھی کریں گے کہ سردیوں میں چھاتی کے انفیکشن سے بچاو کے لیے وٹامن ڈی کس حد تک موثر ہے۔
دوسری جانب برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے شائع کیے جرنل بی ایم جے میں بتایا گیا ہے کہ وٹامن ڈی یا ڈی سپلیمنٹ مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ وہ لوگ جو زیادہ مقدار میں وٹامن ڈی لیتے ہیں ان میں سانس میں انفیکشن جیسی بیماریوں کے چانسز کم ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے فارماکولوجی ریسرچ اینڈ پرسپیکٹو نامی جرنل میں شائع کی گئی ایک اور تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ جلدی بیماریوں میں مبتلا 86 بچوں کو وٹامن ڈی دینے سے ان کی جلد میں تین مہینے بعد واضح بہتری دیکھنے میں آئی۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی ہمارے جسموں میں کیلشیئم اور فاسفیٹ کی مقدار کو ریگولیٹ کرنے میں مدد کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی ہمارے دانتوں، ہڈیوں اور اعصابی نظام کو مضبوط اور صحت مند بناتا ہے۔
برطانوی ماہرین صحت کے مطابق برطانیہ کی نصف آبادی وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہو سکتی ہے۔
دھوپ اور وٹامن ڈی
یاد رہے دھوپ میں بیٹھنا وٹامن ڈی حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین صحت خوراک کے ذریعے بھی وٹامن ڈی لینے کی ہدایات کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق انڈے کی زردی اور تیل والی مچھلی کھانے سے جسم میں وٹامن ڈی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔