پشاور ہائی کورٹ نے عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالب علم مشال خان قتل کیس سے متعلق انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
عدالت نے سزا پانے والے مجروں کی جانب تمام اپیلیں خارج کرکے مرکزی مجرم عمران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔
جسٹس لعل جان خٹک اور سید عتیق شاہ پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا۔ ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا 25 ملزمان کی ضمانت مسترد کرکے کمرہ عدالت سے گرفتاری کا حکم دے دیا۔ عدالت نے مشال خان کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے 7 مجرموں کی سزاؤں کو برقرار رکھا۔
دوسری جانب مشال خان کے والد اقبال خان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت اور مشال خان کے والد نےانسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔ مجرمان کی جانب سے بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپلیں دائرکی گئی تھیں۔
خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے مشال خان کیس میں ایک ملزم کو سزائے موت اور 4 کو عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
اس سے قبل سال فروری 2018 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مشال خان قتل کیس میں 25 ملزمان کی سزائیں معطل کردی تھیں۔ پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ میں کیس سے متعلق سزاؤں کے خلاف اپیل کی سماعت ہوئی تھی جس کے بعد یہ فیصلہ دیا گیا تھا۔
انسداد دہشت گردی عدالت ایبٹ آباد نے مشال خان قتل کیس میں 25 ملزمان کو چار چار سال قید کی سزائیں دی تھیں تاہم ملزمان نے اپنی سزاؤں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کررکھا تھا۔