لاک ڈاؤن کے دوران اپنائی گئی سوشل ڈسٹینسگ (سماجی دوری) ذہنی دباؤ کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
ارجنٹائن میں ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ لاک ڈاؤن ہے۔
20 مارچ کو لگے لاک ڈاؤن کے 3 ماہ بعد ارجنٹائن کے ایک ہسپتال میں ایمرجنسی میں لائے گئے مریضوں میں ایک چوتھائی مریض 1643 مریضوں میں سے 391 یعنی 23.8 فیصد ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا پائے گئے۔
ڈاکٹر نے انکشاف کیا کہ بلڈ پریشر کے مریضوں کا یہ تناسب گزشتہ برس ان تین ماہ کے مقابلے میں ایک تہائی یعنی 37 فیصد زیادہ ہے۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ماتیس فوسکو کا کہنا ہے کہ سماجی تنہائی اور ہائی بلڈ پریشر کے درمیان تعلق کی کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وبائی مرض کے باعث بڑھتا تناؤ، سست طرز زندگی، محدود ذاتی روابط کے ساتھ مالی یا خاندانی مشکلات میں اضافہ یا پھر روزمرہ طرزعمل میں تبدیلی، کھانا، الکوحل اور وزن میں اضافے جیسے عوامل بھی ہائی بلڈ پریشر کا باعث بن سکتے ہیں۔
مطالعہ کے سربراہ ڈاکٹر ماتیس فوسکو کے مطابق مریضوں کی ڈاکٹر سے مشاورت کی عمر، جنس، مہینے، دن کو مدنظر رکھنے کے باوجود سماجی تنہائی کے دور میں ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنت میں ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد میں 37 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ڈاکٹر ماتیس فوسکو کا مزید کہنا تھا کہ سماجی تنہائی (سوشل آئسولیشن) کے آغاز کے بعد ہم نے مشاہدہ کیا کہ ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں میں زیادہ تعداد ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی ہے، چنانچہ اس تاثر کی تصدیق یا اسے مسترد کرنے کیلئے ایک مطالعہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مریضوں میں ہائی بلڈ پریشر فریکوئنسی کا مقابلہ ماضی کے دو ادوار(گزشتہ برس 2019 کے انہی تین ماہ اور سماجی تنہائی سے قبل تین ماہ) سے کیا گیا۔
لاک ڈاؤن کے تین ماہ کے دوران 1643 مریضوں کو ایمرجنسی میں داخل کیا گیا تاہم جب اس تعداد کا مقابلہ 2019 کے انہی تین اور لاک ڈاؤن سے قبل کے تین ماہ سے کیا گیا تو مریضوں کی تعداد میں آدھی سے زیادہ کمی دیکھنے میں آئی۔
تحقیق کے نتائج نے واضح کیا کہ سماجی تنہائی کی مدت کے دوران ہپستال کی ایمرجنسی میں داخل 23.8 فیصد مریض ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا تھے جو 2019 کے مریضوں کے مقابلے میں نمایاں شرح تھی۔
ڈاکڑز کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 اور ہائی بلڈ پریشر کے منسلک کیے جانے سے متعلق تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے