پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگو لیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے اشتہاری اور مفرور ملزمان کی تقاریر ٹی وی چینلز پر نشر کرنے پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد 16 صحافیوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
ان 16 درخواست گزاروں میں سے 6 صحافیوں کی جانب سے اپنا نام خارج کرانے کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
اپنا نام خارج کرانے والوں میں غریدہ فاروقی، مہمل سرفراز، زاہد حسین، نسیم زہرہ، عاصمہ شیرازی اور سلیم صافی شامل تھے، تاہم ایڈووکیٹ غلام شبیر نے عدالت کو بتایا کہ غریدہ فاروقی اور مہمل سرفراز پیٹیشن واپس لینا نہیں چاہتی اس لیے ان کی درخواست کو خارج سمجھا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے غریدہ فاروقی اور مہمل سرفراز کی واپس لی گئی درخواست کو خارج کردیا۔
تاہم چیف جسٹس نے پٹیشن سے دیگر 4 صحافیوں، سلیم صافی، نسیم زہرہ، عاصمہ شیرازی، زاہد حسین کے نام خارج کردیے۔
واضح رہے صحافیوں کی پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کرنے والے ادارے کی جانب سے دیا گیا حکم غیر آئینی تھا اور معلومات کے پھیلاؤ کے سلسلے میں پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر غیر قانونی ممانعت لگائی گئی ہے۔
صحافیوں کی جانب سے درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ممانعت آئینی طور پر غلط اور آئین کی دفعہ 19 اے کے تحت دیے گئے حقوق کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
درخواست کے مطابق یہ پٹیشنرز اور عمومی طور پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا حق ہے کہ کسی بھی شخص بشمول مجرم اور اشتہاری کا نقطہ نظر اور الفاظ ظاہر، شائع اور نشر کریں۔
پٹیشن میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا کوئی مجرم اشتہاری آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سمیت اظہار رائے کے حق سے محروم ہوجاتا ہے؟
واضح رہے درخواست میں پیمرا کے یکم اکتوبر کے حکم اور 25 مئی 2019 کو دی گئی ہدایات کو چیلنج کیا گیا ہےجس میں مذکورہ بالا نشریات کے علاوہ پیمرا نے ذیلی عدالتی امور کے ممکنہ نتائج پر بحث کو نشر کرنے پر بھی پابندی لگا دی تھی۔