ایک انگریزی اخبار کے فرنٹ پیج پر خبر چھپی تھی کہ عمران خان نے وزیر قانون فروغ نسیم کو ملک بھر میں احتساب عدالتیں قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ عدالتیں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت قائم کی جارہی ہیں جو بدعنوانی کے مقدمات کو جلد از جلد نمٹائیں گی ۔ پہلے مرحلے میں کے آغاز میں 30 کورٹس بدعنوانی کے مختلف مقدمات کا جائزہ لیں گی۔ دوسرے مرحلے کے آغاز کا تعین پہلے مرحلے کے کام کو دیکھنے کے بعد کیا جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ اور فنانس ڈیپارٹمنٹس کو خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ بدعنوانی کے مقدمات میں عدالتوں کو مکمل تعاون دیں۔
اگر ہم پاکستان تحریک انصاف کی الیکشن میں کامیابی کے پیچھے وجوہات تلاش کریں تو جہاں مقتدر حلقوں کی سپورٹ کا ذکر آتا ہے وہیں ایک مقبول نعرہ بھی گونجتا ہےجو کرپشن کے خلاف لگایا گیا جس میں عمران خان نے بارہا قوم کو یقین دلایا کہ اقتدار میں آتے ہی وہ ملکی خزانے سے ذاتی تجوریوں کو بھرنے والوں کے خلاف علم بغاوت بلند کریں گے اور چن چن کر ہر اس بندے کو جیل میں ڈالیں گے جس نے ملک کے ساتھ معاشی غداری کی اور اس ملک کو تقریبا کنگال کرکے چھوڑ گئے۔
ڈھائی برس کے دورہ اقتدار میں کتنے کرپٹ لوگ جیل گئے ؟ یہ سوال خاصا مشکل لگتا ہے جب اس کا جواب واضح طور ہر سمجھایا نہیں جاسکتا کیونکہ جن کو کرپشن کے نام پر جیل میں ڈالا جاتا رہا انہی کو خدا ترسی اور کبھی کسی مفاہمت کے تحت باہر بھی نکالا جاتا رہا۔ ماسوائے ان کے چند کارندوں کے کوئی خاص بندہ سزا پاتا نظر نہ آیا بلکہ وہ کارندے بھی سزا سے بچتے نظر آئے۔ ایسا کیوں ہے ؟
حزب اختلاف کو چھوڑئے، بات کرتے ہیں عمران خان کے اپنے لوگوں کی۔ چینی سکینڈل میں جن وزرا مشراء کا نام سر فہرست ہے کیا انہیں سزا ملی ؟ جی آئی ڈی سی کا 417 ارب روپے کا اسکینڈل دبانے کی کوشش کرنے والوں کی نشاندہی کے باجود کیا انہیں کوئی سزا ملی ؟ یا ان کو عہدوں سے الگ ہی کیا گیا؟
رزاق داؤد ، ندیم بابر، جہانگیر ترین، فہمیدہ مرزا وغیرہ جیسے لوگ جن کے مفادات کے ٹکراؤ اور کرپشن سکینڈلز سے ناصرف دنیا واقف ہے بلکہ بعض کے احتساب کے لئے تو خود عمران خان جزباتی تقریریں کرتے تھے لیکن اقتدار میں آتے ہی وہ ایسے مجبور ہوئے کہ کبھی کیا جواز اور کبھی کیا بہانہ گھڑ لیا۔ بس بات یہی سمجھ آئی کہ نظام ریاست میں شرافت اور دیانتداری سے کام کرنے والے کی گنجائش نہیں۔ یہ سسٹم ایسوں کے لیے بنا ہی نہیں جو دیانت اور انصاف پر مبنی فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں صرف وہی چل سکتے ہیں جو کہتے ہیں خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ۔ خود بھی لوٹو اور ہم پہ بھی لٹاؤ ۔
اس بندر بانٹ والے فارمولے کے سبب ہی تو ملکی وسائل سے ملک کو فائدہ نہ پہنچا بلکہ ہماری تو ہر جگہ جگ ہنسائی ہوئی۔ پہلے پہل سنتے تھے کہ سیاستدان کرپٹ ہے اس کی بیرون ملک جائیدادیں اور بنک اکاؤنٹس کثیر سرمائے سے بھرے پڑے ہیں۔ آج ہم ریٹائرڈ جرنیلوں کی پراپرٹی اور اثاثوں کے شواہد دیکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے دور میں بھلا کوئی بات کیسے چھپ سکتی ہے؟ ہر بندہ جو سمارٹ فون استعمال کرتا ہے وہ کسی وقت بھی عام شہری سے ڈیٹکٹو بننے میں دیر نہیں لگاتا اور کلک کلک کلک ۔۔۔ تصاویر بنا لی جاتی ہیں۔ وڈیوزریکارڈ کرلی جاتی ہیں۔ پھر ایسے دور میں کیوں سمجھا گیا کہ ان کے خفیہ اثاثے ظاہر نہ ہوں گے؟
ایک تماشا لگا۔ قوم نما ہجوم کا منہ اور لٹک گیا کہ پہلے صرف سیاستدانوں کی لٹ مار کے قصے سنتے تھے اب وہ ادارہ جس سے پاکستان کا بچہ بچہ بھی پیار کرتااور اس پہ اعتماد رکھتا ہے وہاں سے بھی ایسی ہی کہانیاں سننے کو ملیں تو پھر کس کا بھروسہ کریں اور کس سے امید لگائیں؟ اور میری اطلاعات تو یہاں تک کہتی ہیں کہ عاصم سلیم باجوہ تو ریٹائر تھے یہاں حاضر سروس کے اثاثوں کی فہرست منظر عام پر لانے کی تیاری کی جارہی ہے اور اس کے لئے بھی سوشل میڈیا یا کوئی چھوٹی موٹی ویب سائٹ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اب بتائیں ایسے حالات میں کیا عوام کے اندر بے چینی اور مایوسی نہ پھیلے گی ؟ سننے والے تو اکثر کان لپیٹ کر گزر جاتے ہیں کہ بے چینی پھیل جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس بات کو ہلکا نہیں لیا جا سکتا کیونکہ اضطراب بڑی خرابی کی پیش خیمہ بنتا ہے۔ دنیا بھر میں انقلاب سے پہلے جو جذبہ دکھائی دیا جو سبب بنا وہ یہی بے چینی مایوسی اور اضطراب تھا جسے انقلاب لانے والوں نے استعمال کیا اور ایک پرزور تحریک میں بدلا۔ یہاں جس روز کوئی مائی کا لعل کھڑا ہوگیا اور اس نے صحیح معنوں میں کوئی تحریک شروع کی اس روز ساری عوام سڑکوں پر نکل آئے گی کیونکہ اس ملک میں سب کچھ ملتا ہے ماسوائے دیانتدار لیڈر کے۔
عمران خان کو دیانتدار سمجھ کر لائے لیکن احتساب کرنے کی جلدی میں احتساب کا طریقہ ہی بدل دیا۔ صرف مخالفین کو سبق سکھانے کے لئے قانون کو استعمال کیا جارہا ہے۔ جو کرپٹ ہے اسے اس کی کرپشن کے کیس دکھا کر بلیک میل کیا جارہا ہے کہ ہماری مرضی کی ڈیل کرو۔ حالانکہ درست طریقہ تو یہ ہے کہ جرم ہے تو سزا دیں۔ بس اتنا سا کام ہے قانون کا مگر وہ کوئی اور کام کرنے میں مصروف ہے۔
عوام کا اعتماد پہلے ہی نہیں تھا چھوٹے قد کے بونے قانون پر اب مزید مایوس ہوئے کہ یہاں قانون صرف طاقتور کے ہاتھ جادو کی چھڑی ہے جسے چاہا اٹھایا اور پٹخ دیا۔ جسے چاہا جیل میں ڈال دیا اور جس سے بات بنی اسے نکال دیا۔ کوئی اصول و قواعد نہیں بس طاقت اور اختیار کا کھیل ہے سارا۔
عمران خان اور ان کی کابینہ کا انداز ایسا ہے جیسے وہ اس پانچ سالہ اقتدار کے وقت کو اپنی تربیت کے لئے مختص کرچکے ہیں۔ بار بار غلطیاں اور کوتاہیاں انہیں شرمسار نہیں کرتیں اور نہ ہی کوئی سبق سکھاتی ہیں کہ ان نقصانات سے کچھ سیکھا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار پی ٹی آئی آئندہ الیکشن کے لئے مال پانی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے شواہد جمع کررہی ہے جس سے اگلی بار الیکشن میں صرف اپنی مرضی کی جاسکے یا آئیندہ حکومت بنانے کے لئے انہیں دیگر جماعتوں سے الحاق نہ کرنا پڑے۔
چند روز قبل کسی نے بتایا کہ اسپیکر اسد قیصر کے بھائی نے جب شہراقتدار میں اپنی فیملی شفٹ کی تو موصوف مکان دیکھنے کے لئے جیب میں لاکھوں روپے لئے پھرتے تھے جہاں کوئی گھر پسند آیا جھٹ لاکھ نوٹوں والی گڈیاں جیب سے نکالتے اور مالک مکان کے ہاتھ میں ڈالتے اور ایسا بے دریغ دولت بہانے کا مظاہرہ کرتے کہ بندہ سمجھ نہ پاتا کہ آخر کہاں سے آرہا ہے بھائی یہ سب مال؟ ہاں یاد آیا۔ بھائی تو قومی اسمبلی کا اسپیکر ہے۔
کل ہی تو ایک کیب ڈرائیور 24/25 سال کا لڑکا بتا رہا تھا کہ ایک شخص نے ڈیڑھ لاکھ مانگا نائب قاصد بھرتی کرنے کے لئے۔ میں نے پوچھا کہ اتنی رشوت کیوں مانگی ایک معمولی سی نوکری ہے تو کہنے لگا "میڈم یہ پکی نوکری ہے نا اس کا ریٹ اتنا ہی ہے”۔ ذرا سوچئے ایک نوجوان کہتا ہے کہ اسے ملازمت کرنے کے لئے نوکری "خریدنی” ہے۔ یہ اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی عام آدمی بھی اب رشوت کو ملکی قانون کا حصہ سمجھنےلگا ہے۔ جب وہ خریدی ہوئی نوکری پر کام شروع کرے گا تو وہ اپنی رقم عوام سے پوری کرلے گا۔جب یہ صورتحال ہو تو کون سا احتساب اور کون کرے گا احتساب ؟ وہ جو خود نئے نئے قانون بنارہے ہیں؟
عام آدمی جب کسی جرم کو جرم سمجھنا چھوڑ دے تو پھر انارکی اور خانہ جنگی کو ذہن میں رکھئے جیسے ماضی قریب میں ہم نے دیکھا۔ طالبان نے آپ کے قانون کو قانون نہیں سمجھا تھا۔ وہ بھی اپنی مرضی سے قانون بناتے اور توڑتے تھے۔ کتنا نقصان ہوا ہمیں اس ڈسپلن کی خلاف ورزی سے۔ انسان کو مہذب بنانے کے لئے ڈسپلن ضروری ہے اسی طرح ریاست کو چلانے کے لئے بھی ڈسپلن ضروری ہے۔ہر شے قاعدہ و قانون کے مطابق ہو تو ریاست کی رٹ قائم ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت میں بڑی خامی اسی رٹ کو قائم نہ رکھ سکنا ہے۔
اس کے بعض وزرا تو اتنی بری پرفارمنس دے رہے ہیں کہ جیسے پھر کبھی عوام کا سامنا کرنا ہی نہیں۔ یہ بات بھی ممکن ہے کہ بیرون ملک جائیداد اور دولت جمع رکھنے والوں کو پاکستان سے کیا لگاؤ ہوسکتا ہے تو یقینا ایسے لوگ اپنا منافع کما کر چلے بھی جائیں تو تعجب کی بات نہیں یہی دستور ہے ہمارے سیاستدانوں اور ارباب اختیار کا۔
جس احتساب کا نعرہ لگا کر یہی سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں اس احتساب کی اوقات سے یہ بخوبی واقف ہیں۔ اس لئے اب عوام کو ان احتساب کی عدالتوں کے قیام اور کام سے کچھ امید بھی نظر نہیں آتی اور نہ ایسی خبروں سے کسی کے کان پر جوں رینگتی ہے!!