ایران کے جوہری پروگرام کو عالمی طاقتوں کی جانب سے ہمیشہ متنازع قرار دیا جاتا رہا ہے، سپر پاورز کی جانب سے متعدد مرتبہ ایران کے جوہری پروگرام کو غیرقانون قرار دیتے ہوئے پابندیاں لگائی جاتی رہی ہیں۔
گزشتہ روز ایرانی ایٹمی بم کے باپ سمجھے جانے والے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا لیکن وہ قتل ہونے والے پہلے سائنسدان نہیں ہیں۔
اس سے پہلے بھی متعدد بار جوہری پروگرام کے قائدین سمجھے جانے والے افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں ایران کے جن سائنسدانوں پر قاتلانہ حملے کیے گئے ان کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
مسعود علی محمدی
مسعود علی محمدی کو 12 جنوری 2010 کو تہران میں ایک ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
مسعود علی محمدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک یونیورسٹی میں لیکچرر تھے، انہوں نے کبھی ایٹامک انرجی پروگرام کے لیے کام نہیں کیا۔
عالمی طاقتوں کا تاثر تھا کہ مسعود علی محمدی نے ایرانی جوہری پروگرام کے قائد سائنسدانوں کے ساتھ کام کیا ہے۔
فزکس کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ علی محمد کا جو کام تہران یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تھیوریٹیکل پارٹیکل فزکس تک محدود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ مسعود علی محمدی کے کام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اٹامک انرجی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
ماجد شہریاری
ماجد شہریاری 29 نومبر 2010 کو ایک کار بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حملے میں ان کی اہلیہ شدید زخمی ہو گئی تھیں۔
ایرانی حکام کی جانب سے تب بھی اسرائیل اور امریکا پر حملے کا الزام لگایا گیا تھا۔
فریدون عباسی دوانی
فریدون عباسی دوانی اور ان کی اہلیہ کو بھی 29 نومبر 2010 کو حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایرانی حکام کے مطابق یہ حملہ ٹھیک اس وقت کیا گیا تھا جب ماجد شہریاری کو کار بم دھماکے میں ہلاک کیا گیا تھا۔
حملے میں فریدون عباسی دوانی اور ان کی اہلیہ شدید زخمی ہو گئی تھیں۔
ایرانی میڈیا کے مطابق عباسی دوانی کو فروری 2011 میں اٹامک انرجی آرگنائزیشن کا نائب صدر مقرر کیا گیا تھا۔
داریوش رضائی
داریوش رضائی کو 23 جولائی 2011 کو تہران میں نامعلوم شخص نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا، اس وقت ان کی عمر صرف 35 سال تھی۔
داریوش رضائی فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد مقامی یونیورسٹی میں لیکچرر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ان کی ہلاکت کے بعد نائب وزیر داخلہ سفرعلی براتلو نے ان کے جوہری پروگرام سے منسلک ہونے والی خبروں کی تردید کی تھی۔
مصطفیٰ احمدی روشن
مصطفیٰ احمدی روشن کو جنوری 2012 میں تہران میں کار بم دھماکے میں مار دیا گیا تھا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق ایک موٹر سائیکل سوار نے ان کی کار میں بم نصب کیا تھا۔
بتیس سالہ احمدی روشن نے کیمیکل انجنیئرنگ میں گریجویشن کر رکھی تھی، ایران نے انہیں جوہری پروگرام کا سائنسدان تسلیم کیا تھا اور کہا تھا کہ حملے میں امریکا اور اسرائیل ملوث ہیں۔
یاد رہے گزشتہ روز تہران میں قتل کیے گئے محسن فخری زادہ 2012 کے بعد قتل ہونے والے پہلے سائنسدان ہیں۔