اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی نے اپنے کیس کی جلد سماعت کیلئے چیف جسٹس گلزار احمد کو تیسرا خط لکھ دیا۔
2 صفحات پر مشتمل اپنے خط میں انہوں نے لکھا کہ میں آپ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ معاملے پر جلد سماعت کیلئے (عدالتی) دفتر کو ضروری ہدایات جاری کریں۔
یاد رہے اس سے پہلے 24 سمتبر کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر بندیال نے شوکت عزیز کی بطور جج برطرفی کے 11 اکتوبر 2018 کے نوٹیکفیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سابق جج کے وکیل حامد خان سے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے حتمی فیصلے انتظار کریں۔
واضح رہے 23 اکتوبر کو جسٹس عیسیٰ کیس میں اکثریتی فیصلہ جاری کیا گیا۔
سابق جج شوکت صدیقی نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ ایک عام شہری قانونی چارہ جوئی کرنے والے کیلئے موجود حقوق کا ان کیلئے انکار نہیں کیا جائے گا اور ان کے ساتھ شخصی نقطہ نظر کے ذریعے عدالتی دفتر کی جانب سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔
خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ وہ 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔
انہوں نے لکھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے۔
سابق جج شوکت صدیقی نے لکھا کہ میرے کیس میں بینچ کے واضح احکامات کے باوجود درخواست کو کبھی خود سے مقرر نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میری حیرانی اور مایوسی کو 2 ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن دفتر کی جانب سے درخواست کو مقرر کرنے سے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
واضح رہے اسلام آباد کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر میں بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے برطرف کر دیا گیا تھا۔