وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے وزیراعظم عمران خان کے بعد سب سے زیادہ خدمات جہانگیر ترین کی ہیں۔
اردو نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا کہ تحریک انصاف کو موجودہ مقام تک پہنچانے میں جہانگیر ترین کا عمران خان کے بعد سب سے زیادہ کردار ہے۔
جہانگیر ترین کے مستقبل کے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ عمران خان اور جہانگیر ترین نے کرنا ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ ماضی میں جہانگیر ترین نے عمران خان کے بعد پارٹی کے لیے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے اور پارٹی کو اس مقام تک پہنچایا ہے جہاں ہم الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں آئے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان ایک سے زیادہ دفعہ رابطہ ہوا ہے تاہم یہ علم نہیں کہ آخری بار دونوں کب رابطہ کیا تھا، ایک دو بار وزیراعظم نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جہانگیر یہ کہہ رہا تھا۔
اسد عمر نے بتایا کہ نوازشریف کے ترجمان محمد زبیر کو دھمکیاں ملنے کے الزامات کی انہوں نے ذاتی طور پر درخواست کر کے تحقیقات کرائی ہیں مگر ان میں ایسی کوئی بھی بات سامنے نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ محمد زبیر کے ساتھ انہوں نے تحقیقات کے نتائج شیئر کیے تھے، ان میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کوئی ایک شخص انفرادی کارکردگی دکھانے کی کوشش کر رہا تھا، کسی ادارے کی جانب سے کوئی دھمکی نہیں ملی تھی۔
اسد عمر کے بقول ’مجھے بتایا گیا تو میں نے سنتے ہی ان کو کہا کہ اس بات کی کوئی سمجھ نہیں آتی، ان کے( محمد زبیر) کسی دوست کو کسی نے فون کیا اور ان کا فون نمبر مانگا۔ تو کیا پاکستان میں کسی ریاستی ادارے کو کسی کو فون کر کے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا فون نمبر کیا ہے؟ لیکن اس کے بعد میں نے کسی سے درخواست کر کے باقائدہ تحقیق کرائی تھی اور اس میں اس قسم کی کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔‘
نوازشریف کی وطن واپسی کے متعلق سوال پر اسد عمر نے بتایا کہ حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے کہ انہیں پاکستان واپس لائے، اس حوالے سے حکومت برطانیہ کے ساتھ باضابطہ رابطہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ نواز شریف 15 جنوری تک واپس آ جائیں گے، انہیں صحت کی بنیاد پر ویزا دیا گیا تھا جس کی معیاد اسی ہفتے ختم ہو جائے گی۔
کورونا وبا کے متعلق اسد عمر کا کہنا تھا کہ جنوری کے وسط میں اس کا پاکستان میں عروج ہو گا، اس کے بعد کیسز میں کمی آنے کا امکان ہے۔ اگر عوام آج سے ایس او پیز پر عمل شروع کر دے تو دسمبر کے بعد بھی کیسز کم ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں اس وقت 2500 مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت ہے، یہ تعداد جون میں 3300 تھی، گویا ہم 80 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔اگر ہمیں لگا کہ یہ تعداد اس حد تک بڑھ سکتی ہے کہ جہاں ہمارے ہسپتالوں میں گنجائش کے مسائل کا سامنا کرنا ہو تو پھر مزید سخت بندشیں لاگو کرنا ہوں گیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا اب مکمل لاک ڈاؤن کو غلط مان چکی ہے، جہاں وبا کے پھیلاؤ کا سب سے زیادہ خطرہ ہے وہاں بندشیں لگائی جائیں گی۔
پاکستان میں کورونا وائرس کی ویکسین کی دستیابی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے ڈیڑھ سو ملین ڈالرز کی منظوری دے دی ہے اور وزات صحت کو ویکسین بنانے والی مختلف کمپنیوں سے بات چیت کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ چینی کمپنی کی پاکستان میں ویکسین کے کلینکیل ٹرائلز دسمبر میں مکمل ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں 2021 کے پہلی سہ ماہی کے آخر میں یا دوسری سہ ماہی کے آغاز میں ویکسین دستیاب ہوگی۔