سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں بینچ کی تشکیل پر اعتراضات سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
6 رکنی بینچ نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی۔
یاد رہے جسٹس فائز عیسیٰ اور دیگر درخواست گزاروں نے 6 رکنی بینچ کی تشکیل پر اعتراض کیا ہے۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کا فیصلہ دینے والا 10 رکنی بینچ ہی کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی کی علالت کے باعث عدالت نے تحریری دلائل طلب کر لیے۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سماعت میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ دیا گیا تھا، بینچ نے وکیل منیر اے ملک سے بھٹو کیس میں جسٹس دراب پٹیل فیصلے کا پیرا گراف 27 پڑھوایا، جس کے مطابق نظرثانی کیس میں جسٹس دراب پٹیل نے بینچ پر اعتراضات کے حوالے سے رائے دینے سے گریز کیا تھا۔
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم کسی خاص کیس پر نہیں بلکہ اصول کی بات کر رہے ہیں، اگر جج کا شامل ہونا ضروری ہے تو تمام کیسز میں ضروری ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایک بینچ میں جتنے ججز نے فیصلہ دیا اس سے کم ججز نظرثانی درخواست نہیں سن سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ناممکن نہ ہو تو اسی بینچ کو نظرثانی کیس میں بیٹھنا چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز کی تعداد نظرثانی کیس میں تبدیل یا کم نہیں ہونی چاہئے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے کہا کہ قانون کے مطابق اصل کیس میں شامل تمام ججز کو بینچ میں شامل ہونا چاہئے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ کیس کارروائی کی ریکارڈنگ یا ٹرانسکرپٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس فائز کی اہلیہ سے کہا کہ آپ رجسٹرار آفس میں درخواست دے سکتی ہیں، آپ کے لیے ہمدردی ہے، آپ کو وکیل کی معاونت لینی چاہیے، مناسب سمجھیں تو ہم کسی قابل وکیل کو معاونت کا کہہ دیتے ہیں۔
سرینا عیسی نے کہا کہ مانتی ہوں کہ بینچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے لیکن ہمارے کیس میں چیف جسٹس فریق ہیں، تو وہ کیسے بنچ بنا سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ بار ایسوسی ایشن کے صدر دو روز میں بینچ کی تشکیل پر تحریری جواب دلائل جمع کرائیں، جس کے بعد بینچ پر اعتراضات کا فیصلہ سنایا جائے گا۔