• Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
اتوار, اکتوبر 19, 2025
  • Login
No Result
View All Result
NEWSLETTER
Rauf Klasra
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
No Result
View All Result
Rauf Klasra
No Result
View All Result
Home کالم

کراچی کی نیلوفر کی کہانی

by sohail
مارچ 18, 2020
in کالم
3
0
SHARES
1
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

عدالت جب انصاف دینے پر آئے تو انصاف کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک قانونی انصاف اور دوسرا معالجاتی انصاف۔ وہ عدالتی عمل جو انصاف سے بڑھ کر مسیحائی کرے وہی معاشروں میں خیر کا باعث بنتا ہے۔
نیویارک اور نیوجرسی میں دو بڑے ائیرپورٹ ہیں۔ ایک تو ان کے صدر جان ایف کینیڈی کے نام پر ہے جے ایف کے خاصا بڑا ہے دوسرا اس شہر کے ایک سابق میئر فلوریلا گارڈیا کے نام پر ہے اور لاگارڈیا کہلاتا ہے۔ یہ ان کے نناویں مئیر تھے۔ 1934 سے 1945  کے دس سال امریکہ میں شدید معاشی بدحالی کے سال کہتے ہیں۔ The Great Depression تھے۔ اس عرصہ کو وہاں

ایک ٹھٹھرتی ہوئی صبح جب میئر گارڈیا بطور جج کے مسند انصاف پر بیٹھے تو ایک بڑھیا کو پیش کیا گیا۔ اس پر الزام ڈبل روٹی چرانے کا تھا۔ بڑھیا نے یہ ڈبل روٹی اپنے لیے اور اپنے تین چھوٹے نواسے، نواسیوں کے لیے چرائی تھی جن کی کفالت کا ذمہ اس بوڑھی نانی کا تھا۔ بقول پولیس رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی۔ مال مسروقہ بھی قبضہ ء ملزم سے گواہان کی موجودگی میں برآمد ہوا تھا۔ پولیس کہیں کی بھی ہو غریب اور بے کس کا جرم ثابت کرنے میں بہت مستعد ہوتی ہے۔

جج گارڈیانے اس پر دس ڈالر کا جرمانہ کیا اس لیے کہ یہ انصاف کا تقاضا تھا۔عدالت میں ایک سناٹا چھاگیا۔ کیوں کہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں بڑی بی کا جیل جانا لازم تھا۔ ملزمہ جس کے پاس ڈبل روٹی خریدنے کے پیسے نہ تھے جرمانے کی رقم کہاں سے لائے گی، سب اسی سوچ اور تاسف میں مبتلا تھے۔ اس سے پہلے کہ پولیس کے مارشل اس دکھیاری کو جیل لے جاتے جج صاحب نے کہا اس کا جرمانہ میں ادا خود کروں گا مگر ابھی فیصلہ پورا نہیں آیا۔ فیصلے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ میرا یہ ہیٹ عدالت میں کشکول کے طور پر گھمایا جائے۔ کمرے میں موجود ہر شخص پر فی کس پچاس سینٹ جرمانہ عائد کیا جا رہا ہے۔ یہ سب بھی اس جرم میں شریک ہیں۔ وہ ایک ایسے شہر اور سماج کا حصہ ہیں جہاں ایک بڑی بی اور چند بچوں کو کھانے کے لیے ڈبل روٹی جیسی معمولی شے خریدنے کی استطاعت نہ ہو، وہ اتنی بے کس و بدحال ہوجائے کہ اسے چوری کرنی پڑے۔ جرمانے کی یہ رقم بڑی بی کو دی جائے۔ یوں مقدمے کے فیصلے کی رو سے بڑی بی کو پچاس ڈالر کی رقم مہیا ہو گئی۔

کبھی آپ نے سوچا کہ ہمدردی اور خیر خواہی میں کیا فرق ہے۔ ہمدردی میں آپ خود کو محض اظہار افسوس تک محدود رکھتے ہیں جو جرمانے سے پہلے کورٹ میں موجود افراد کی کیفیت تھی اور خیر خواہی وہ جرمانہ تھا جو جج نے ان پر عائد کرکے انہیں خیر خواہی اور ترحم پر مجبور کیا۔ یہ ہے وہ معالجاتی انصاف (Healing Justice)۔ پاکستان جیسے ممالک میں بالخصوص عدالت کو داد رسی سے زیادہ بحالی اور تحفظ فراہم کرنے کا سوچنا چاہیئے۔

انتظامی مجسٹریٹسی ایک ادارہ تھا جسے ختم کرکے بہت بڑا ظلم کیا گیا۔ جرائم اور بدمعاشی پر کنٹرول، فسادات کو ابتدا میں روکنا، قیمتوں پر کنٹرول، تجاوزات، عدالت کے احکامات کی پابندی کے لیے یہ ادارہ لازم ہے ورنہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے دنوں کے فسادات، بلدیہ فیکٹری اور ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات کی روک اس ادارے کے ذریعے عین ممکن تھی۔

ہم ان دنوں سب ڈویژنل مجسٹریٹ لیاقت آباد تھے۔ راستے کی ایک نجی مصروفیت کی وجہ ہمیں معمول سے ایک گھنٹہ پہلے دفتر آنا پڑا۔ عدالت کا پیش کار ظہیراور پی اے دفتر کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ویسے بھی جلدی آ جاتے تھے۔ ہم ابھی اپنی نشست پر براجمان ہی ہوئے تھے کہ مبارک پی اے  کمرے میں آیا اور کہنے لگا کہ ایک بلا کی حسین خاتون ملنے کے لیے صبح سات بجے سے انتظار کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ایک سات آٹھ سال کا لڑکا بھی ہے جسے وہ اپنا بیٹا بتاتی ہے۔ ضد کر رہی ہے کہ مجھے صاحب سے فوراً ملواؤ۔ بہت دیر سے سمجھا رہا ہوں کہ عدالت کی کارروائی صبح نو بجے شروع ہوتی ہے۔ وہ مصر ہے کہ فوری ملنا چاہتی ہے۔ یہ اس کی ملاقات کی پرچی ہے۔ پرچی دیکھی تو اس پر نام لکھا تھا "نیلوفر حسن”۔ یہ سوچ کر کہ پتہ نہیں بے چاری کو کیا مسئلہ در پیش ہو مبارک سے کہا وہ اسے اندر بھیج دے۔

نیلوفر جب کمرے میں داخل ہوئی تومبارک کا بیانیہ  درست لگا۔ نیلوفر حسین اور بہت مہذب لگی۔ ہم نے سوچا کہ جو عورت اس ملاقات کے لیے صبح سات بجے سے یہاں پہنچی ہوئی ہے وہ گھر سے یقینناً صبح چھ بجے چلی ہوگی اور جانے کب سے اُٹھی ہوئی ہوگی۔ا س لیے کہ آنکھوں میں بے خوابی کا بوجھل پن نمایاں تھا۔ پوچھا کیا مسئلہ درپیش ہے۔ کہنے لگی کہ علاقے کا ایس۔ڈی۔ایم ہونے کے ناطے وہ اس کے لیے تین باتوں کا بندوبست کرے۔ پہلے اس کے رہنے کا، دوسرے اسکی ملازمت کا، تیسرے اسکے بیٹے کی اسکول کا۔ ہم نے یہ سن کر اسے چھیڑا کہ” وہ اگر اپنے پرس میں دیکھے تو شائد اسے ایک ایسا کاغذ مل جائے گا جسے نکاح نامہ کہتے ہیں، وہ نکالے تاکہ وہ اس پر دستخط کردے، اس لیے کہ یہ معاملات توشادی سے زیادہ اور پولیس اور اسکی عدالت سے کم تعلق رکھتے ہیں”۔

 نیلوفر نے قدرے اعتماد سے جتلایا کہ وہ یہاں مذاْق کرنے نہیں آئی۔ وہ شدید پریشانی میں ہے اور وہ اپنے علاقے کے حاکم کے پاس آئی ہے۔ ہم نے اس سے کہا کہ اگر وہ  دو سوالوں کے جواب ایمانداری سے دے دے توہم اس کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ نے چاہا تو اس کی مشکلات حل ہوجائیں گی۔ "

پہلا  یہ کہ اچانک یہ تینوں مسئلے راتوں رات کیسے کھڑے ہو گئے اور دوسرے یہاں آنے کا مشورہ اسے کس نے دیا۔؟”

نیلوفر نے دوسرے سوال کا جواب پہلے دیا۔

” آپ کے پاس آنے کا مشورہ مجھے میری پڑوسن سعدیہ نے دیا، آپ نے ہمارے محلے کے بدمعاش لڑکوں سے اسے  بچایا تھا”۔ 

  ہم بتائے دیتے ہیں کہ سعدیہ  بے چاری ایک پارلر پر کام کرتی  تھی۔ اضافی آمدنی کے لیے علاقے سے باہر اس کی  سرگرمیاں کچھ غیر اخلاقی  بھی تھیں۔ بھنک پانے پر پلازا کے مولوی صاحب سے لے کر سیاسی نہلے دہلے اسے تنگ کرتے تھے۔ یہ سب اس سے تعلقات کے خواہاں تھے۔ سعدیہ اپنی بوڑھی ماں اور ایک چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتی تھی۔ علاقے میں اس کی کوئی شکایت نہیں تھی۔ ان سب ڈشکروں کا بندوبست ہم نے  یوں کیا کہ  سیاسی بلونگڑوں کی تو سیکٹر کے  سردار بھائی کے ذریعے کٹ لگوادی اور مولوی کا بندوبست پولیس کے ذریعے  ایسا کیا کہ وہ  کراچی چھوڑ کرلالہ موسی دوڑ گیا۔

  سعدیہ اس کے بعد چین سے رہنے لگی۔ دوسرے سوال کے جواب میں وہ کہنے لگی کہ اسکا میاں ایک بڑا جواء ہار گیا ہے۔ جیتنے والے کی نیّت نیلوفر کو دیکھ کر خراب ہوگئی، میاں کی مرضی ہے کہ جوئے کی رقم کے مطالبے کو ٹالنے کے لیے وہ اس کو خوش رکھے۔ ایک رات اس جیتنے والے کو چھوڑ کر گھر سے خود غائب ہوگیا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی عصمت بچائی اور بھاگ کر  سعدیہ کے ہاں پناہ لی، صبح تین بجے جب اس جوا ء جیتنے والے کو یقین ہوگیا کہ وہ واپس اسکے پاس  نہیں آئے گی تو وہ گھر سے چلا گیا۔ میاں ابھی بھی گھر پر نہیں لوٹا تھا۔ جیسے تیسے اس نے کپڑے بھرے اور بچے کی کتابیں اوراپنا نجی سامان سمیٹ کر وہ سعدیہ کی مدد سے اس کے دفتر پہنچ گئی۔

یہ  دکھ بھری داستان سن کر ہم لرز گئے اور نیلوفر کی مدد کرنے کی ٹھان لی۔

ان دنوں علاقے کے افسروں کی تھوڑی بہت عزت ہوتی تھی۔ نیلوفر کے جو تین مسئلے تھے وہ فون پر ہی حل ہو گئے۔ ایک جاننے والی  گجراتی فیملی کے ہاں پیئنگ گیسٹ کا  سادہ سا انتظام تھا۔ اس کو وہاں بھجوایا۔ اسٹار گارمنٹس فیکٹری کے مالکان طاہر بھائی اور چمن بھیا ہمارے مداح تھے، ان کو فون کیا تو انہوں نے نیلوفر کو ٹیلرنگ کے کام پر لگا دیا وہ سلائی اچھی کرتی تھی۔ اسکول کی ہیڈ مسٹریس کو فون کیا، وہ ہماری بڑی ممنون تھیں۔ سیکرٹری تعلیم کو کہہ کر اس پر نظر بد رکھنے والے  ایک افسر کا تبادلہ ٹھٹھہ کرا دیا تھا۔ اس نے بیٹے کو فوراً داخلہ دے دیا۔ سرکاری اسکول تھا پر معیار بہت اچھا تھا۔ 

   ایسا نہ تھا کہ ہم بھول جاتے۔ اس فیملی کی جانب سے نیلوفر کی شرافت اور خلوص، طاہر بھائی اس کی فرض شناسی  اور دین داری کے معترف تھے، ہیڈ مسٹریس کی جانب سے جوہر کی ذہانت کا  فیڈ بیک عمدہ الفاظ میں باقاعدگی سے پہنچ رہا تھا۔  

  ٹھیک پانچ ماہ بعد نیلوفر دوبارہ ہمارے دفتر آئی، ایک مرد بھی ساتھ تھا جسے اس نے  اپنا میاں ظاہر کیا اور کہا کہ اس کے میاں نے اس سے معافی مانگ لی ہے۔ وہ جواری بھی ملک سے باہر چلا گیا ہے۔ وہ گھر واپس جانا چاہتی ہے اور ہماری اجازت طلب کرنے آئی ہے۔

ہم نے کہا  "گھر جانے کا فیصلہ اس کا اپنا ہے اگر وہ کبھی بھی کوئی دشواری محسوس کرے تو دوبارہ کسی تردد کے بغیر یہاں آسکتی ہے۔” چند ماہ بعد ہمارا وہاں سے تبادلہ ہوگیا اور پھر کیا ہوا نہ تو کہیں سے کوئی اطلاع  آئی،۔

اتنا بتائے دیتے ہیں کہ جس  بدمعاش سے نیلوفر کا میاں جوا ہارا تھا وہ آرام سے بیٹھنے والا نہ تھا۔ کراچی کے بڑے ڈان شعیب خان کا پھیلاؤ ہمارے سامنے ہوا تھا۔ وہ ہمارا بڑا قدر دان تھا۔ شروع میں ڈرتا بھی تھا  اس کے عزیز اکرم کے ذریعے ہم  نے  پیغام بھیجا تو بدمعاش کو اٹھالیا گیا۔ بہت کٹ لگائی۔ کہہ دیا گیا کہ نیلوفر کے معاملے میں رقم نہیں ملے گی۔ بازی کو بھنڈ (زیرو) سمجھو۔۔ نیلوفر کے خاندان سے رابطہ نہیں رکھنا۔

 ہمارا جی چاہتا ہے یہ خاندان  رابطہ کرے تو ہم دیکھیں کہ زندگی کو بدلنے والی  سرکاری ملازم کی معمولی کوشش کیا پھلواریاں سجاتی ہے۔

نوٹ: چند کرداروں کے نام ان کی حرمت کے تحفظ کی خاطر بدل دیے گئے ہیں

محمد اقبال  دیوان کے کالمز  ”  ہمارے  ویب میگزین نقار خانہ  میں  ”مومن مبتلا“ کے نام سے شائع ہوں گے۔ آپ چار عدد کتب کے مصنف ہیں جسے رات لے اڑی ہوا، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا، پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ، دیوار گریہ کے آس پاس۔ پانچویں کتاب ”چارہ گر ہیں بے اثر“ ان دنوں  ادارہ قوسین کے ہاں زیرطبع ہے۔ آپ کے کالمز وجود، دلیل، دیدبان،اور مکالمہ پر شائع ہوتے رہے ہیں۔آپ سابق بیورکریٹ ہیں

sohail

sohail

Next Post

شوہر نے اپنے بھائی کے ساتھ بیوی کا جعلی نکاح نامہ ساتھ بنا لیا

بابا کے کپڑوں کی خوشبو باقی ہے

عالمی بینک، اے ڈی بی کا پاکستان کو 588 ملین ڈالر دینے کا اعلان

بھاری ناشتہ وزن کم کرتا ہے، نئی سائنسی تحقیق

پرندے کی وفا: 20 برس بعد دوست کے پاس لوٹ آیا

Comments 3

  1. سجیل سرور ربانی says:
    6 سال ago

    دیوان جی کی تھریر کا لاگ ہی سواد ہے، 2000 سے اخبار پڑھ رہا ہوں ساتھ کبھی کوئ کتاب بھی، لیکن دیوان صاحب کی ٹحریر نے جو چاشنی دی وہ شاید آخری ہو۔

    جواب دیں
  2. Tahir ali Bandesha says:
    6 سال ago

    ہمارے لیے یہ خوشی کی خبر ہے کہ اب مومن مبتلا کے نام سے دیوان صاحب کے کالمز پھر سے پڑھنے کو ملیں گے ، دنیا جہان کی سیر ہو گی ، علم و گیان میں بڑھوتری ہو گی ۔

    جواب دیں
  3. طاہر علی بندیچھہ says:
    6 سال ago

    ہمارے لیے یہ خوشی کی خبر ہے کہ اب مومن مبتلا کے نام سے دیوان صاحب کے کالمز پھر سے پڑھنے کو ملیں گے ، دنیا جہان کی سیر ہو گی ، علم و گیان میں بڑھوتری ہو گی ۔ نت نئی کہکشائیں پڑھنے دیکھنے کو ملیں گی۔

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • About
  • Advertise
  • Careers
  • Contact

© 2024 Raufklasra.com

No Result
View All Result
  • Home
  • Politics
  • World
  • Business
  • Science
  • National
  • Entertainment
  • Gaming
  • Movie
  • Music
  • Sports
  • Fashion
  • Lifestyle
  • Travel
  • Tech
  • Health
  • Food

© 2024 Raufklasra.com

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In