تحریر: امیر حمزہ
دنیا اس وقت ایسی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے جہاں مفادات کا تصادم، چیلنجز کا باہم گٹھ جوڑ، اور عالمی طاقت کا نیا نقشہ ابھر رہا ہے۔ اس نئی دنیا میں سلطنت عمان، سلطان ہیثم بن طارق کی قیادت میں، توازن، حکمت اور عقل و فہم کے ساتھ ایک منفرد مقام حاصل کر چکی ہے۔ عمان نے نہ صرف اپنی عالمی موجودگی کو مضبوط بنایا ہے بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں نرمی، تدبر اور تدریجی پیش رفت کی نئی تعریف متعارف کروائی ہے۔
سلطان ہیثم بن طارق کے حالیہ دورۂ نیدرلینڈز کو صرف رسمی ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ دورہ عمان کی اس حکمت عملی کا مظہر ہے جو طویل المدتی اقتصادی و ثقافتی شراکت داریوں پر مبنی ہے۔ یہ دورے دراصل “عمان 2040” ویژن کی عملی شکل ہیں، جن میں ماضی کی سفارتی میراث اور مستقبل کی ترقی ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
عمان کی خارجہ پالیسی کی جڑیں ہزاروں سال پرانے اس ورثے میں پیوست ہیں، جہاں عمانی قوم نے تجارت، علم اور امن کے اصولوں پر دنیا کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ آج بھی جب سلطان سفید عمامہ زیب تن کرتے ہیں، تو وہ صرف روایتی لباس نہیں ہوتا بلکہ یہ امن، حکمت اور رواداری کی علامت بن چکا ہے، جو دنیا کو ایک واضح پیغام دیتا ہے۔
یہ خارجہ دورے صرف سیاسی بیانات یا سرکاری دستخطوں تک محدود نہیں بلکہ اقتصادی ترقی، سرمایہ کاری، جدید ٹیکنالوجی، قابلِ تجدید توانائی، ثقافت، تعلیم، اور اختراع جیسے شعبوں میں نئے مواقع پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ سلطان کا وژن یہ ہے کہ عمان کو عالمی سطح پر ایک اقتصادی، لوجسٹک اور ثقافتی مرکز بنایا جائے، جہاں تعاون اور ترقی کا دروازہ ہر قوم کے لیے کھلا ہو۔
ثقافتی جہت بھی ان دوروں میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جو عمان کی تہذیبی شناخت کو دنیا کے سامنے ایک امن پسند اور باوقار قوم کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس سے سلطنت نہ صرف سفارتی طور پر بلکہ ثقافتی طور پر بھی اپنی منفرد پہچان کو مزید مستحکم کر رہی ہے۔
“نئی عمان” صرف نعرہ نہیں بلکہ ایک سوچ ہے—ایک ایسی سوچ جو استحکام، تنوع، بین الاقوامی دوستی اور ترقی کی علامت بنتی جا رہی ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے نقشے میں، سلطنت عمان ایک ایسی رہنمائی پیش کر رہی ہے جو توازن اور تدبر پر مبنی ہے—ایسا کردار جو آج کی دنیا کو سب سے زیادہ درکار ہے۔