آج سپریم جوڈیشل کونسل کا اہم اجلاس ہوا جس میں دو نئے ججز کو آئینی بینچ میں شامل کرنے کی منظوری دی گئی۔ اس بڑے فیصلے کو اس کی اہمیت کے بارے میں میڈیا میں دیکھا نہیں گیا اور صرف روٹین خبر کی طرح لیا گیا ۔
آج دو ججز جن میں جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس عقیل عباسی کو اکثریتی رائے سے آئنی بینچ کا ممبرز بنایا گیا ہے ان کی شمولیت کے بعد سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی تعداد 13 سے 15 ہو گئی ہے۔
اس وقت دو اہم کیسز جن میں مخصوص نشستیں اور 26 ویں آئینی ترمیم کی اپیلز زیر التوا ہیں آج آئینی بینچ میں ججز کی تعداد بڑھنے کے فیصلے کے بعد سب سے پہلے 26 ویں آئینی کی اپیل کا آئینی بینچ سنے گا ۔
حکومت پلان کے مطابق 15 آئینی ججز میں اکثریت 26 ویں ترمیم کے حق میں فیصلہ دے سکتی ہیں جس کے بعد 26 ویں ترمیم کو سپریم کورٹ سے لیگل کور بھی مل جائے گا جس کو عمران خان اور دیگر وکلا نے چیلنج کر رکھا ہے۔
26 ویں ترمیم کی اپیل کا فیصلہ حق میں آنے کی صورت میں زیر التوا مخصوص نشستوں کی نظر ثانی اپیل 15رکنی بینچ کے سامنے ہو گی۔
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ 8 اور 5 کے تناسب سے پی ٹی آئی کے حق میں دیا تھا اور مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو فوراً دینے کا حکم دیا گیا تھا لیکن حکومت نے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کر دی تھی اور سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ جس میں منصور علی شاہ اور منیب اختر شامل تھے 26 ویں ترمیم سے قبل خط لکھ کر عملدارمد کروا کر 26 ترمیم رکوانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن حکومت کی پلانگ اور اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ججز کے خط (کلیفریکشن آڈر) پر قانونی اعتراضات اٹھادیئے جس وجہ سے ایک بار پھر عملدرآمد نہ ہو سکا ۔
اب آئینی بینچ کی تعداد 15 ہونے کے بعد حکومت پرامید ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئنی بینچ ٹرن ڈاؤن کر دے گا ۔
اگر فیصلہ مخصوص نشستوں کا حکومت کے حق میں آتا ہے تو حکومت نشستیں حاصل کرنے کے بعد 27 ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر لے گی حکومت کے آنے والے پلان کے مطابق مخصوص نشستیں ملنے کے بعد 26 ویں ترمیم جو نکات منظور نہیں کروا سکی تھی، جن میں سپریم کورٹ کی آئینی عدالت کا قیام اور دیگر معاملات ہیں ان کو 27 ویں ترمیم کے ذریعے منظور کروا کر ایک قانونی اور سیاسی محاذ پر کامیابی حاصل کر لے گی اور پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کمزور پوزیشن پر لے آئے گی۔