کبھی یقین نہیں آتا انسانوں کی زندگی میں اتنے دکھ بھی ہوسکتے ہیں۔ انسان ایسی قسمت لے کر بھی پیدا ہوتے ہیں۔پنڈی میں انیس سالہ سدرہ بھی ان میں سے تھی۔ باپ فوت ہوگیا۔ ماں نے دوسری شادی کر لی۔
شادی کے چند ماہ بعد خاوند نے زبانی طلاق دے دی۔ ایک کشمیر کے لڑکے عثمان کے ساتھ کورٹ میرج کی۔تین چار دن بعد اس کے چچا اور باقی رشتہ دار اسے کشمیر سے گن پوائنٹ پر پنڈی واپس لائے۔ اس رات ہی صبح چار بجے جرگہ ہوا۔ بتایا جاتا ہے عصمت خان نے فیصلہ دیا۔ اس جرگے میں نہ ماں تھی نہ باپ تھا۔ اگر ہوتے تو بھی قبائلی روایات کے پابند ہوتے اور بلوچستان میں بانو کی ماں کی طرح اسے جائز قرار دیتے۔
مردوں نے سدرہ کو پکڑا اور اندر کمرے میں جا کر اس کے منہ پر تکیہ رکھ کر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔پنڈی میں بارش ہورہی تھی۔ اس وقت ہی رکشے میں اس کی لاش ڈالی۔ پنڈی قبرستان لے گئے۔ وہاں گورگن وغیرہ نہ تھے تو سنا ہے خود ہی قبر کھودی۔ قبر کے نشان مٹائے کہ یہاں کوئی دفن تھا۔ قبرستان کے انچارج کو پیسے دیے۔
سولہ جولائی کوسدرہ کو مارا گیا اور جب بات سرگوشیاں شروع ہوئیں تو پانچ دن بعد اکیس جولائی کو پنڈی تھانے میں مقدمہ بھی درج کرا دیا کہ سدرہ گیارہ جولائی کو گھر سے ڈیرھ لاکھ نقدی اور زیورات لے کر بھاگ گئی ہے۔ جب ایف آئی آر ہورہی تھی تو سدرہ کو قتل ہوئے بھی پانچ دن ہوچکے تھے اور تھانے میں سدرہ کے خلاف ایف آئی ار کرانے والے ہی سدرہ کے قاتل تھے۔
یہ سب کچھ سدرہ نے انیس سال کی عمر میں بھگتا۔۔ باپ کی موت، ماں کی دوسری شادی، اس سال جنوری اپنی شادی کے چھ ماہ بعد طلاق، جولائی میں دوسری کورٹ میرج، جرگہ اور جرگے کا موت کا فیصلہ ،یہ سب انیس برسوں کی کہانی تھی اور آج اسی انیس سالہ سدرہ کی قبر کشائی ہوئی ہے ۔