تحریر : سمیرا سلیم
ملکی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک اب معمول کی بات بنتی جا رہی ہے۔جس ملک کی جیلوں میں گنجائش سے دو گنا افراد قید ہوں اور سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہوں وہاں صحت کا مزید متاثر ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
حال ہی میں پریزن ڈیٹا رپورٹ 2024 منظر عام پر آئی ہے جس میں جیلوں کی بدترین صورتحال بارے چونکا دینے والے انکشافات کیے گئے ہیں ۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک کی 116 جیلوں میں 65 ہزار 811 قیدیوں کی گنجائش کے مقابلے میں ایک لاکھ 2 ہزار 26 قیدی موجود ہیں، جیلیں 152 فیصد اضافی گنجائش پر کام کر رہی ہیں۔ تاہم، کراچی کی سینٹرل جیل کی صورتحال ان سب سے بدتر ہے جہاں یہ تناسب 300 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ پنجاب کی جیلوں کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ۔
یہاں گنجائش 37 ہزار افراد کو رکھنے کی ہے مگر اس وقت ان جیلوں میں 61 ہزار 813 افراد بند ہیں۔ ملک بھر کی جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کی موجودگی پر 2011 میں ایک بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے پیپلز پارٹی کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت جلد متعلقہ قوانین میں اصلاحات کر کے جیلوں کے نظام کو بہتر بنائے۔
رپورٹ میں ناکافی عملہ اور بد انتظامی کے باعث قیدیوں میں شدت پسندانہ رجحانات اور مجرمانہ سوچ کی حوصلہ افزائی جیسے سنگین نوعیت کے مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔تاہم اس وقت کی حکومت نے اس پر مناسب توجہ نہیں دی۔ آج 13 سال گزرنے کے بعد حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید بدتر ہو چکے ہیں۔بدقسمتی سے ساری توجہ سیاسی انجینئرنگ پر مرکوز ہے۔ بنیادی انسانی حقوق حکمرانوں کی ترجیحات میں کہیں دور تک نظر نہیں آتے۔
دنیا میں فلاحی ریاست کا درجہ رکھنے والے ممالک میں جیلوں کا تصور بہت مختلف ہے، وہ جیلیں کم اور بحالی کے مراکز زیادہ لگتے ہیں۔اسکینڈے نیویا کے ممالک ناروے، سویڈن، ڈنمارک اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔ ان ممالک میں جرم سے نفرت کی جاتی ہے مجرم سے نہیں۔ انھیں انسان سمجھا جاتا ہے اور بنیادی انسانی حقوق مجروح نہیں کئے جاتے۔ یہاں کے قیدیوں کو اگر ان ممالک کی جیلوں میں جانے کا اتفاق ہو تو وہ برملا کہیں گے کہ ہمیں تاحیات اسی جگہ پر قید رہنے دیں۔
جو وی آئی پی سہولیات انہیں جیل میں میسر آئیں گی اس کا تصور تو انھوں نے وطن عزیز میں آزاد رہ کر بھی نہیں کیا ہوگا۔ ناروے کی ایک جیل Halden Prison جو سویڈن کے بارڈر کے ساتھ واقع ہے کو دنیا میں انسانی حقوق کے عین مطابق اور انتہائی پُر آسائش جیل کا درجہ حاصل ہے۔ اس جیل میں ملزمان کو الگ الگ کمروں میں رکھا جاتا ہے جس میں اٹیچ باتھ روم، ٹی وی اور روشندان بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاہ جیل میں وڈیو روم، جم اور دیگر کئی طرح کی سہولیات قیدیوں کو میسر ہیں۔
اسی طرح آسٹریا میں ایک پُرتعیش جیل بنائی گئی ہے جس کا نام The Justice Center Lroben ہے جو Leoben کے علاقے میں واقع جس میں 205 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ اس جیل میں بھی قیدیوں کے اٹیچ باتھ روم کی سہولت کے ساتھ الگ الگ کمرے ہیں۔ انھیں اعلیٰ معیار کی خوراک اور میوزک سسٹم، جم، سپا، واک کے لیے گراؤنڈ اور گیمز کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
مانا کہ ہمارا ملک غریب ہے اور آبادی بہت زیادہ ہے لہٰذا ایسی آسائیشوں بھری جیلوں کا وجود ممکن نہیں ہے۔ مگر ایسا بھی کیا ظلم کہ انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح زندان کی نذر کر دیاجائے۔ صحت جیسی بنیادی ضروریات دینا بھی گوارا نہ ہو۔ اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ ہمارا نظام عدل و انصاف بھی ہے۔ زیر التواء کیسز اور انصاف کے عمل میں تاخیر کی وجہ سے قیدیوں کو طویل عرصے تک جیل میں رہنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں ہمارے عدالتی نظام پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہے، ورلڈ جسٹس رول آف لا انڈیکس میں پاکستان قانون کی حکمرانی اور سکیورٹی میں 142 ممالک میں سے دنیا کا تیسرا بدترین ملک بن گیا ہے۔ رہی سہی کسر 26ویں آئینی ترمیم کر کے پوری کر دی گئی۔ ایسے میں انصاف کی توقع کس سے کی جائے۔ فیض احمد فیض نے بھی کیا خوب کہا ہے!
‘بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں’
صورتحال اب اس قدر بدتر ہو گئی ہے کہ جیلوں میں لاعلاج مرض ایڈز کے مریضوں کی بڑی تعداد سامنے آرہی ہے۔ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کی رپورٹ میں خوفناک انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کی جیلوں میں 645 قیدی ایڈز کا شکار ہیں۔ روالپنڈی کی اڈیالہ جیل عمران خان کے وہاں قید میں ہونے کے وجہ سے اکثر خبروں کی زینت بنتی رہتی ہے ۔
اس جیل میں ایک ہزار 994 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ جیل 4 ہزار 337 قیدیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے۔اب رپورٹ بتا رہی ہے کہ اڈیالہ جیل میں 148 ایڈز کے مریض موجود ہیں۔ یہ نمبر انتہائی پریشان کن ہے کیونکہ دیگر جیلوں کی نسبت سب سے زیادہ اڈیالہ کی قیدی مہلک مرض میں مبتلا ہیں۔ عمران خان بھی اس وقت اڈیالہ جیل میں ہیں اور اسیری کاٹ رہے ہیں۔ عمران خان اس وقت ملک کا مقبول ترین لیڈر ہیں، ان حالات میں جیل میں اتنی بڑی تعداد میں ایڈز کے مریضوں کی موجودگی کی خبروں کا منظر عام پر آنا ان سے ہمدردی رکھنے والوں کیلئے یقینا تشویش کا باعث ہوگا۔
ابھی کچھ دن قبل ہی عمران خان کے بیٹے قاسم خان نے ایک انٹرویو میں اڈیالہ جیل میں ہیپاٹائٹس سے 10 قیدیوں کی اموات کا دعویٰ کیا تھا۔ قاسم خان نے اس پریشانی کا اظہار بھی کیا کہ کہیں ان کے والد بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ قاسم خان کے الزام کو اگرچہ اڈیالہ جیل کے سپرٹینڈنٹ عبد الغفور انجم نے یکسر مسترد کر دیا تھا تاہم اب ایڈز کے مریضوں کی بڑی تعداد کا سامنے آنا اچھا منظرنامہ پیش نہیں کر رہا۔پہلے ہی عمران خان کی صحت کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
خان صاحب کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ ان کے کان اور آنکھوں میں کافی عرصہ سے تکلیف ہے اور پمز کے ڈاکٹرز علاج کر رہے ہیں۔خان کی بہنوں اور پارٹی کو سرکاری ڈاکٹروں پر مشتمل پمز ہسپتال کے میڈیکل بورڈ پر اعتماد نہیں اور ان کا مسلسل اصرار ہے کہ عمران خان کا طبی معائنہ ان کے ذاتی معالج سے کرایا جائے۔ اگرچہ بورڈ نے دانت اور کان حساس ہونے کی بنا پر ان کو سپورٹیو مینجمنٹ کی تجویز دی ہے تاہم حکومت عمران خان کو اپنے ذاتی ڈاکٹر تک رسائی کی اجازت نہیں دے رہی۔ تاہم دیگر لیڈروں کی طرح عمران خان نے بیماری کا بہانہ بنا کر کسی ہسپتال میں داخل ہونے کی خواہش کا اظہار بھی نہیں کیا۔
چند برس پیچھے جائیں تو اس وقت جیل میں قید نواز شریف کو عمران خان کی حکومت نے ہر طرح کی طبی سہولیات اور ذاتی معالج تک رسائی دی تھی۔ قید کے دوران پارٹی راہنما بلا روک ٹوک جیل میں ملاقاتیں بھی کرتے تھے اور ہمہ وقت گھر کے کھانے کی سہولت بھی میسر تھی۔ جیل میں بوریت محسوس ہوتی تو پلیٹلیٹس کے اتار چڑھاؤ کے سہارے ہسپتال منتقل ہونے کی خواہش بھی پوری ہوجاتی جو بالآخر لندن یاترا پر منتج ہوا۔
اس سے قبل مشرف دور میں نواز شریف ڈیل کے ذریعے سعودی عرب تشریف لے گئے۔ عمران خان جب سے جیل گئے ہیں وہ کسی ہسپتال میں داخل ہوئے نہ ہی پلیٹلیٹس نے دغا دیا۔ موجودہ نظام نے جن حالات میں سابق وزیراعظم عمران خان کو رکھا ہوا ہے اس سے شریف اور زرداری خاندان کا کبھی پالا نہیں پڑا۔ اب پنجاب ایڈز کنٹرول کی رپورٹ نے جیلوں کے حالات پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ قیدی ٹی بی ، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی اور ایڈز جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
9 مئی کے نام پر جیلیں بھری جا رہی ہیں۔ اسکینڈے نیویا کے ممالک جیسی جیل اصلاحات اور نظامِ عدل کا خواب تو شائد پورا ہونا ممکن نہ ہو تاہم قیدیوں کو اتنا حق تو ملنا چاہئے کہ وہ خود کو انسان سمجھ سکیں۔ ہمارے حکمران ماضی میں خود بھی جیلیں بھگتتے رہے مگر افسوس کہ کچھ سبق نہ سیکھا۔شاید وجہ یہ ہے کہ جیل میں جن آسائیشوں سے وہ لطف اندوز ہوتے رہے اس نے قید کا تصور ہی ختم کردیا۔ ماضی گواہ ہے کہ اس ملک میں سیاسی حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اقتدار کے سنگھاسن سے اڈیالہ کی تاریک کوٹھڑی کا فاصلہ زیادہ نہیں۔ یہ بات سیاسی قائدین سے بہتر کون جانتا ہوگا۔سو عوام کیلئے نہ سہی خود کا ہی بھلا سوچ لیں۔