دبئی: شمالی پاکستان کے بلند و بالا پہاڑوں میں ایک شاندار جانور رہتا ہے ،مارخور۔ یہ پاکستان کا قومی جانور ہے اور بین الاقوامی ٹرافی ہنٹنگ کا قیمتی ترین شکار سمجھا جاتا ہے۔
اپنی پیچ دار (کاک اسکریو) سینگوں، بہتی ہوئی ڈاڑھی اور بے مثال پھرتی کے ساتھ، مارخور، جس کا مطلب ہے سانپ کھانے والا، چیلنج، وقار اور کامیاب قدرتی تحفظ کی سب سے بڑی علامت بن چکا ہے۔
مارخور کا شکار کیوں مشکل ہے؟
دیگر بڑے شکار کے جانوروں کے برعکس، مارخور ناقابلِ رسائی، بلند پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ہندوکش، قراقرم اور مغربی ہمالیہ کے پہاڑوں میں یہ بکری نما جانور 3ہزار سے 4ہزار میٹر بلندی پر رہتے ہیں، جہاں برفانی تودے، کھڑی چٹانیں اور تیز دھار پہاڑی سلسلے زمین کو خطرناک بناتے ہیں۔
شکار کے لیے اس کا مطلب ہے: اونچی بلندی پر لمبے سفر، کئی دنوں تک دوربین سے تلاش، اور برفیلے پتھریلے ڈھلوانوں پر خاموشی سے رینگنا۔ مارخور کی غیر معمولی نظر، سونگھنے کی حس اور پھرتی کی وجہ سے اس کے قریب جانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اکثر شکار دور فاصلے سے، خطرناک زاویوں پر، گھنٹوں یا کبھی کبھار ہفتوں کی گھات کے بعد کیا جاتا ہے۔
مارخور کا شکار صرف جسمانی طور پر مشکل ہی نہیں بلکہ مالی طور پر بھی امیروں کا شوق ہے۔ ہر سال گلگت بلتستان وائلڈ لائف اینڈ پارکس ڈپارٹمنٹ محدود تعداد میں پرمٹ نیلام کرتا ہے۔
2025-26 کے سیزن میں ریکارڈ رقم میں پرمٹ فروخت ہوئے:
ایک استور مارخور کے لیے 370,000 ڈالر دنیا کی سب سے مہنگی شکار کی اجازت فیس۔
دیگر استور پرمٹ 286,000 ڈالر، 270,000ڈالر اور 240,000 ڈالر میں فروخت ہوئے۔بلو شیپ (نیلی بھیڑ) کے پرمٹ 40,000ڈالر تک پہنچے، اور ہمالیائی آئی بیکس کے 13,000ڈالر تک۔
استور مارخور پرمٹ کی بنیادی قیمت حال ہی میں 150,000 ڈالر سے بڑھا کر 200,000 ڈالر کر دی گئی ہے، جو بڑھتی ہوئی مانگ اور اس موقع کی نایابی کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ لاکھوں ڈالر کے پرمٹ زیادہ تر امریکا، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے امیر شکاری خریدتے ہیں، جو نہ صرف شکار بلکہ پاکستان کے دلکش پہاڑی علاقوں میں ایک زندگی بھر کے تجربے کے لیے یہ رقم ادا کرتے ہیں۔
صدیوں سے مارخور کا شکار شمالی پاکستان کی ثقافتی روایت رہا ہے۔ مقامی قبائل اسے مہارت، بہادری اور بقا کی علامت سمجھتے تھے۔ لیکن بیسویں صدی کے آخر تک بے قابو شکار اور غیر قانونی شکاریوں نے اس کی تعداد خطرناک حد تک کم کر دی تھی، یہاں تک کہ یہ ناپید ہونے کے قریب پہنچ گیا۔
1990 میں پاکستان نے کمیونٹی بیسڈ ٹرافی ہنٹنگ پروگرام شروع کیا، جس نے شکار کو تحفظ کا ذریعہ بنا دیا۔
ہر سال صرف چند بوڑھے، افزائش سے باہر نر مارخور کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔
پرمٹ کی 80 فیصد آمدنی مقامی کمیونٹیز کو جاتی ہے جو اسکول، طبی مراکز، سڑکوں اور تحفظ کے منصوبوں پر خرچ ہوتی ہے۔
باقی 20 فیصد حکومت کو ملتی ہے تاکہ جنگلی حیات کا انتظام کیا جا سکے۔
اس ترغیب نے دیہات کو مارخور کے محافظ بنا دیا۔ جہاں پہلے وہ غیر قانونی شکار کرتے تھے، اب وہ جانور کی حفاظت کرتے ہیں، کیونکہ اس کی بقا براہِ راست ان کے روزگار سے جڑی ہے۔
نتائج حیران کن ہیں: پاکستان میں مارخور کی آبادی 5ہزار سے زائد ہو گئی ہے، جس کے بعد IUCN نے 2015 میں اس کی حیثیت انتہائی خطرے سے قریب الخطر (Near Threatened) پر ڈاؤن لسٹ کر دی۔
مار خور کی خصوصیات
مارخور دنیا کی سب سے دلکش جنگلی بکریوں میں سے ایک ہے۔
اس کے سینگ جو پیچ دار ہوتے ہیں اور نر میں 160 سینٹی میٹر تک جاتے ہیں ۔
کھال کا رنگ : سرمئی سے سنہری بھورا، سردیوں میں زیادہ گہرا۔
ڈاڑھی: بالغ نر میں لمبی بہتی ہوئی، جس سے اس کی شان بڑھتی ہے۔
نام: فارسی سے ماخوذ، "مارخور” یعنی "سانپ کھانے والا”۔
پاکستان میں مارخور کی پانچ ذیلی اقسام پائی جاتی ہیں:
استور
کشمیر
کابل
سلیمان
بخاراں
یہ تمام اقسام گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے الگ الگ پہاڑی خطوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال چکی ہیں۔
شکار کا موسم
شکار کا موسم نومبر سے اپریل کے وسط تک رہتا ہے، جبکہ دسمبر سب سے موزوں سمجھا جاتا ہے جب نر مارخور ملاپ کے موسم میں سب سے زیادہ سرگرم ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ خوراک کی تلاش میں کچھ نیچے آتے ہیں اور شکاریوں کے لیے نسبتاً زیادہ قابلِ رسائی ہو جاتے ہیں۔
شکاریوں کو مہینوں پہلے سے تیاری کرنی پڑتی ہے، جس میں بلندی پر سانس لینے کی مشقیں، برداشت بڑھانے کی ٹریننگ اور طویل فاصلے تک نشانے بازی کی پریکٹس شامل ہے۔
ٹرافی سے بڑھ کر
بین الاقوامی شکاریوں کے لیے مارخور کی ٹرافی حاصل کرنا بڑے شکار کے سفر کی معراج ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ظاہر کرتا ہے کہ ذمہ دار شکار کس طرح تحفظ کے منصوبوں کو فنڈ کر سکتا ہے۔ اور مقامی کمیونٹیز کے لیے مارخور اب صرف ایک جانور نہیں بلکہ فخر، شناخت اور روزگار کا ذریعہ ہے۔
جیسا کہ گلگت بلتستان کے ایک دیہاتی نے کہا:“مارخور کو پہلے ختم ہونے تک شکار کیا جاتا تھا۔ اب ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں، کیونکہ جب مارخور پھلتا پھولتا ہے، ہم پھلتے پھولتے ہیں۔”