میسورو: گزشتہ ساڑھے پانچ سالوں میں اوسطاً ہر ماہ 13 شادی شدہ خواتین جہیز کی وجہ سے کیے جانے والے کے ظلم و ستم کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔جبکہ روزانہ کم از کم آٹھ خواتین نے اپنے شوہروں کی جانب سے ہراسانی کی شکایت درج کرائی ہے۔ یہ ریاست میں ازدواجی تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔
خواتین و اطفال کی بہبود کی وزیر لکشمی ہیببلکار نے حالیہ قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں ایم ایل سی گووند راجو کے سوال کے جواب میں یہ اعداد و شمار پیش کیے۔ ان کے مطابق صرف اس سال کے پہلے سات ماہ میں ہی 1ہزار 677 مقدمات شوہروں کی ہراسانی کے اور 70 جہیز کی وجہ سے ہلاکتوں کے درج کیے گئے ہیں۔
2020 سے 2025 تک کے اعداد و شمار
جنوری 2020 سے جولائی 2025 تک، کرناٹک میں شوہروں کی جانب سے خواتین کو ہراساں کرنے کے 14ہزار 626 مقدمات درج کیے گئےجبکہ اسی عرصہ کے دوران جہیز کی وجہ سے ہراسانی کے باعث 834 ہلاکتیں ہوئیں۔
حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے اس ڈیٹا میں گھریلو تشدد کی تعریف میں ہراسانی، مارپیٹ، جسمانی و ذہنی اذیت، اور باڈی شیمنگ شامل ہیں۔
خواتین کمیشن کی سربراہ کا کہنا ہے کہ خودمختاری کی خواہش رکھنے والی خواتین نشانہ بنتی ہیں۔
خواتین کے حقوق کی ایک کارکن کا کہنا تھا کہ آج پورا معاشرہ چند خواتین کے واقعات کی آڑ میں عورتوں پر حملہ آور ہے۔ اصل میں یہ اعداد و شمار خواتین کے شدید دکھ اور تکلیف کو ظاہر کرتے ہیں۔
کرناٹک اسٹیٹ کمیشن فار ویمن کی چیئرپرسن ناگ لکشمی چودھری کے مطابق ریاست میں ہراسانی اور جہیز کی اموات کے کئی اسباب ہیں:
خواتین کو اس وقت ہراساں کیا جاتا ہے جب وہ شوہر کے ناجائز تعلقات پر اعتراض کرتی ہیں۔
جب وہ آزادانہ طور پر کمانے کی کوشش کرتی ہیں۔
کئی بار انا (Ego) کے ٹکراؤ کی وجہ سے بھی ہراسانی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بھی بہت سے خاندان چاہتے ہیں کہ عورت مرد پر ہی انحصار کرے۔ جو عورت اس سوچ کو چیلنج کرے، وہ ہراسانی کا شکار بنتی ہے۔
ناگ لکشمی کا کہنا تھا کہ کئی غریب خاندان لڑکیوں کی جلدی شادیاں کر دیتے ہیں۔ افسوس کہ 99 فیصد کیسز میں اگر کوئی عورت شوہر کے ناجائز تعلقات پر سوال اٹھائے تو شوہر کے والدین کبھی اس کا ساتھ نہیں دیتے۔
ماہرین کی رائے
کوملا ایم، یونیورسٹی آف میسورو کی پروفیسر (ہیومن ڈیولپمنٹ اینڈ فیملی اسٹڈیز) نے کہا کہ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی عزت کریں اور بار بار کی جھڑپوں کے بجائے ایڈجسٹمنٹ کریں تو زیادہ تر واقعات روکے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا:“خاندان میں تشدد کا اثر بالآخر بچوں پر پڑتا ہےاور ہراسانی غلط ہے، خواہ کوئی بھی کرے۔