منیلا: فلپائن میں اربوں ڈالر کے سیلاب سے بچاؤ کے منصوبے کرپشن اسکینڈل کی نذر ہوگئے ہیں، جنہوں نے ملکی سیاست اور عوامی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کم از کم 9.55ارب ڈالر (545 ارب پیسو) کے منصوبوں میں سنگین بدعنوانی، غیر مؤثر استعمال اور ادارہ جاتی بے ضابطگیوں کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
سینیٹ کی بلیو ربن کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر پینفلو لاکسن نے تہلکہ خیز انکشاف کیا کہ موجودہ ایوان نمائندگان کے 67 ارکان خود بھی ٹھیکیدار ہیں۔ یہ انکشاف فلپائن کے سیاسی ڈھانچے میں زلزلے کے مترادف ہے جس سے قانون ساز اور منافع خور کی لکیر مٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔
تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ کم از کم 15 پسندیدہ کمپنیوں کو ہر سال بڑے ترقیاتی ٹھیکے دیے جاتے رہے ہیں، جبکہ منصوبوں میں کاغذی اضافہ، جعلی پروجیکٹس اور اربوں پیسو کے کک بیکس عام تھے۔ لائیو سٹریم شدہ سماعتوں میں بتایا گیا کہ سرکاری دفاتر میں نوٹوں سے بھرے کمروں کا استعمال اس لیے کیا گیا تاکہ لین دین کا کوئی ریکارڈ نہ رہے۔
اب تک محکمہ پبلک ورکس اینڈ ہائی ویز (DPWH) کے 250 انجینئرز اور عملے کو فارغ کیا جا چکا ہے جبکہ 25 افراد کے خلاف ناقابلِ ضمانت فوجداری مقدمات درج ہوئے ہیں۔ مگر ناقدین کے مطابق یہ صرف سطح کو کھرچنے کے مترادف ہے۔
صدر فرڈیننڈ مارکوس جونیئر نے آزاد تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے، تاکہ پارلیمان، ٹھیکیداروں اور سرکاری انجینئروں کے مبینہ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا جا سکے۔ ساتھ ہی اپوزیشن اور عوامی حلقے سخت بجٹ اصلاحات اور ذمہ داروں کو جیلوں تک پہنچانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ اسکینڈل اب ایک ’تثلیثِ طاقت اور منافع‘ کی علامت بن گیا ہے، جس میں سیاستدان، نجی ٹھیکیدار اور آڈیٹر مبینہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ملی بھگت کر کے عوامی وسائل کو لوٹتے رہے ہیں۔ اسکولوں، اسپتالوں اور ماحولیاتی منصوبوں پر خرچ ہونے والے اربوں پیسو ذاتی مفاد اور سیاسی کھیل کی نذر ہوگئے، جبکہ عام فلپائنی عوام ٹوٹی سڑکوں، ناکام پلوں اور بار بار آنے والے سیلابوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔