20 سال سے زائد عرصے سے نابینا شخص آنکھ میں دانت نصب ہونے کے بعد دنیا کو دیکھنے کے قابل ہوگیا۔
جی ہاں واقعی سننے میں تو یہ کسی سائنس فکشن فلم کی کہانی محسوس ہوتی ہے مگر ایسا حقیقت میں ہوا۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے برینٹ چیمپن 13 سال کی عمر میں اس وقت بینائی سے محروم ہوگئے تھے جب ایک دوا کھانے سے انہیں شدید الرجی کا سامنا ہوا۔
اس الرجی کے نتیجے میں دونوں آنکھوں کی بینائی زائل ہوگئی اور انہوں نے اگلی 2 دہائیاں بینائی کو بحال کرنے والے علاج کی تلاش میں گزار دیں۔
شمالی وینکوور سے تعلق رکھنے والے برینٹ چیمپن کو کسی طریقہ علاج سے کامیابی نہیں ملی اور آخر میں وہ وینکوور کے ماؤنٹ سینٹ جوزف ہاسپٹل کے ڈاکٹر گریک مولینی سے ملے۔
ڈاکٹر گریک نے انہیں دائیں آنکھ کے لیے ٹوتھ ان آئی آپریشن کرانے کا مشورہ دیا۔
1960 کی دہائی میں اس سرجری کو پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا اور اس کے بعد دنیا بھر میں محض چند سو افراد پر یہ آپریشن کیا گیا۔
ڈاکٹر گریک نے برینٹ چیمپن کا ایک دانت نکال کر اسے سپاٹ کیا اور پھر اس کے وسط میں ڈرل کرکے ایک ننھا سوراخ کیا۔
اس سوراخ میں ایک prosthetic لینس لگایا گیا اور پھر دانت کو مریض کی آنکھ کے سامنے نصب کر دیا گیا، جس کے بعد وہ اس نئے لینس کی بدولت دنیا کو دیکھنے کے قابل ہوگیا۔
ڈاکٹر گریک نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ مریض کا دانت اس لیے استعمال کیا گیا تاکہ جسم کی جانب سے اسے مسترد کیے جانے کا خطرہ کم ہوسکے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مریض اکثر اس طریقہ کار کے بارے میں سن کر دنگ رہ جاتے ہیں اور انہیں یقین نہیں آتا کہ ایسا بھی ممکن ہے۔
برینٹ چیمپن کے مطابق وہ بھی اس طریقہ کار کے بارے میں سن کر شاک رہ گئے تھے کیونکہ انہیں یہ کسی سائنس فکشن فلم کا خیال محسوس ہوا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سن کر سوچا یہ تو بہت زیادہ عجیب ہے۔مگر آپریشن کامیاب ثابت ہوا۔
برینٹ چیمپن نے بتایا کہ آپریشن کے بعد بیدار ہونے پر انہوں نے فوری طور اپنے ہاتھوں کو حرکت دی اور اب وہ دیکھنے کے قابل ہوچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں، بینائی واپس آگئی ہے اور یہ دنیا بالکل نئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس لمحے وہ پہلی بار ڈاکٹر گریک کو دیکھنے کے قابل ہوئے، وہ ہم دونوں کے لیے بہت جذباتی تجربہ تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب ڈاکٹر گریک اور میں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا تو ہم دونوں ہی رونے لگے۔