تحریر : رافعہ زاہد
لندن/واشنگٹن: عالمی کاروباری شخصیت اور ٹیک انڈسٹری کے رہنما ایلون مسک نے حالیہ دنوں میں نہ صرف کاروباری دنیا بلکہ عالمی سیاست میں بھی ہنگامہ پیدا کیا ہے۔ ان کے بیانات اور سیاسی مداخلت نے امریکہ اور برطانیہ میں عوامی مظاہروں اور کشیدگی کو فروغ دیا، جبکہ ماہرین نے انہیں تاریخ کے طاقتور کاروباری اور سیاسی کرداروں کی یاد دلاتے ہوئے تناظر میں دیکھا ہے۔
امریکہ میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
5 اپریل 2025 کو امریکہ کے 1,400 سے زائد شہروں میں مظاہرے ہوئے، جن میں تقریباً 30 لاکھ افراد شریک ہوئے۔ مظاہرین نے ٹرمپ اور مسک کی پالیسیوں کی مخالفت کی اور وفاقی ملازمین کی برطرفیوں، امیگریشن پالیسیوں میں اصلاحات، اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کی۔ مظاہرین نے سڑکوں پر جمع ہو کر جمہوری اقدار کے تحفظ اور سوشل سیکیورٹی و ہیلتھ کیئر میں کمی کے خلاف نعرے لگائے۔ بعض شہروں میں “ٹیسلا ٹیک ڈاؤن” احتجاج کے دوران نو افراد کو بھی گرفتار کیا گیا۔
برطانیہ میں “Unite the Kingdom” مارچ
13 ستمبر 2025 کو لندن میں منعقد مارچ میں تقریباً 110,000 سے 150,000 افراد شریک ہوئے، جس کی قیادت متنازعہ فَر رائٹ رہنما ٹامی رابنسن کر رہے تھے۔ مارچ کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، متعدد اہلکار زخمی ہوئے اور درجنوں مظاہرین گرفتار کیے گئے۔ اس کے ساتھ، “Stand Up To Racism” جیسی تنظیموں نے جوابی مظاہرے کر کے نسل پرستی اور نفرت انگیز بیانیہ کے خلاف آواز بلند کی۔
ایلون مسک کے متنازعہ بیانات
مسک نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا:
• “تشدد تمہارے پاس آ رہا ہے… یا تو لڑو یا مر جاؤ”
• “پارلیمنٹ کو تحلیل ہونا چاہیے”
• “بے قابو امیگریشن برطانیہ کی تباہی ہے”
• “ووک مائنڈ وائرس معاشرے کو کمزور کر رہا ہے”
ماہرین کے مطابق یہ بیانات امریکہ سے برطانیہ میں سیاسی مداخلت اور نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے کے مترادف ہیں، جس نے عوامی مظاہروں اور سیاسی بحث کو شدت دی ہے۔
حکومتی ردعمل
برطانیہ کے وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ یہ بیانات خطرناک اور اشتعال انگیز ہیں، اور احتجاج جمہوری حق ہونے کے باوجود تشدد ناقابل قبول ہے۔ لندن کے میئر صادق خان نے خبردار کیا کہ لندن نفرت کا مرکز نہیں بن سکتا۔ قانونی ماہرین کے مطابق، مسک کے بیانات براہِ راست غیر قانونی تشدد کی ترغیب نہیں دیتے، مگر کشیدگی اور معاشرتی تقسیم میں اضافہ کرتے ہیں۔
تاریخی مشابہت
تاریخ میں ایسے کئی طاقتور افراد آئے ہیں جنہوں نے صرف کاروباری دنیا میں ہی نہیں بلکہ سیاست اور معاشرت پر بھی اثر ڈالا، بالکل ایلون مسک کی طرح۔
جان ڈی روکفلر (John D. Rockefeller) امریکہ کے تیل کے صنعت کار اور دنیا کے پہلے ارب پتی تھے۔ انہوں نے Standard Oil کے ذریعے امریکہ میں تیل کی مارکیٹ پر قبضہ حاصل کیا اور اپنے اثرورسوخ سے حکومتی پالیسیوں پر بھی اثر ڈالا۔ لیکن ان کے کاروباری طریقوں کے خلاف اینٹی ٹرسٹ قوانین بن گئے اور بعد میں وہ فلاحی کاموں میں مصروف ہو گئے۔
کورنلیئس وینڈر بلٹ (Cornelius Vanderbilt) نے ریلوے اور شپنگ میں طاقت حاصل کی اور سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا۔ ان کی دولت اور اثرات معاشرت اور معیشت میں نمایاں تھے، مگر ان کے رویے اکثر اخلاقی تنقید کا باعث بنتے رہے۔
صنعت کار جو جنوبی افریقہ میں حکومت پر اثر ڈالتے تھے نے وقتی فوائد حاصل کیے، مگر عوامی دباؤ اور سیاسی مخالفین نے ان کے اثرات کو محدود کر دیا۔
ولیم ٹیکر شرمن (William Tecumseh Sherman) امریکی سول جنگ کے جنرل تھے جنہوں نے عسکری حکمت عملی اور طاقتور فیصلوں کے ذریعے سیاسی اور عوامی ماحول پر اثر ڈالا۔ ان کی اثر انگیزی وقتی اور مخصوص حالات تک محدود رہی، مگر ان کے اقدامات آج بھی فوجی نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں۔
نتیجہ
تاریخ اور موجودہ حالات سے واضح ہوتا ہے کہ طاقتور شخصیات وقتی طور پر اثر ڈال سکتی ہیں، مگر قانون، عوامی دباؤ اور سماجی ردعمل اکثر ان کے اثرات کو محدود کر دیتا ہے۔ ایلون مسک کے بیانات نے امریکہ اور برطانیہ میں مظاہروں کو ہوا دی اور سیاسی ماحول میں کشیدگی پیدا کی، مگر مستقبل میں عوامی اور قانونی دباؤ ان کے اثرات کو محدود کر سکتا ہے۔ یہ دیکھنا اب دلچسپ ہوگا کہ کیا مسک کی سرگرمیاں عالمی سیاست میں مستقل اثر ڈال پائیں گی یا وقت کے ساتھ محدود ہو جائیں گی