بھارتی نژاد دل کے سرجن امل بوس (55) کو برطانیہ میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے لنکاسٹر کے بلیک پول ہسپتال میں اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ساتھی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔ تاہم پولیس کو گرفتار ہونے پر بوس نے کہا کہ "یہ تو بس فلرٹ تھا۔”
یہ واقعات 2017 سے 2022 کے درمیان پیش آئے جب وہ ہسپتال کے کارڈیو ویسکیولر سرجری ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔ ایک خاتون نے عدالت کو بتایا کہ بوس کا رویہ ایک کھلا راز تھا اور نئے آنے والوں کو پہلے ہی یہ ہدایت دی جاتی تھی کہ ان سے کیسے نمٹنا ہے۔
بوس خواتین کی ظاہری شکل پر باقاعدگی سے تبصرے کرتا تھا اور واٹس ایپ گروپ پر انہیں "تازہ گوشت” کہتا تھا۔
بوس کی ایک متاثرہ نے عدالت کو بتایا کہ ایک بار وہ آپریشن سے پہلے ہاتھ دھو کر تیاری کر رہی تھی تو سرجن نے اسے چھوا۔ ایک اور موقع پر، جب وہ نئی نئی ڈیپارٹمنٹ میں شامل ہوئی تھی، بوس نے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ ایک اور متاثرہ کو آپریٹنگ تھیٹر میں اس وقت چھوا گیا جب وہ آپریشن کی تیاری میں اس کی مدد کر رہی تھی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ دستانے پہننے کے بعد بوس نے جان بوجھ کر اسے نامناسب انداز سے پکڑا۔
ایک خاتون نے کہا کہ بوس نے اس کے جیب سے پین نکالتے ہوئے اس کے سینے کو چھوا۔ ایک اور نے بتایا کہ وہ ہر بار جب اس سے ملتی تو نامناسب انداز میں چھوتا، جس سے وہ خوف زدہ اور بے چین رہتی اور اس سے بچنے کے لیے اپنی ڈیوٹی کا وقت بدلنے پر مجبور ہو جاتی۔
بوس کے وکیل ٹام پرائس کے سی نے عدالت کو بتایا کہ اگرچہ اس نے متاثرہ خواتین کو ٹرائل کی اذیت سے گزارا، لیکن اس کے مؤکل کو عدالت میں آ کر ہی ان کے حقیقی درد کا احساس ہوا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ بوس ایک نہایت ماہر سرجن تھا لیکن شکایات سامنے آنے کے بعد اس نے اپنی ملازمت کھو دی اور اب ایک پارسل ڈلیوری مین کے طور پر کام کر رہا ہے۔
جج انزورٹھ نے تسلیم کیا کہ بوس ایک انتہائی ماہر سرجن تھا اور اس کے ساتھی بھی اس کی بڑی عزت کرتے تھے، لیکن انہوں نے کہا کہ یہی حقیقت اس کے جرائم کو "مزید المیہ” بنا دیتی ہے۔