(نوٹ ) یہ رپورٹ ٹائمز آف انڈیا کی ہے جسے آپ کیلئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقات کی، اُس ملک کو سرِعام گلے لگاتے ہوئے جسے وہ اپنی زیادہ تر سیاسی زندگی میں، حتیٰ کہ اپنے پہلے صدارتی دور میں بھی، "دھوکے باز دہشتگردوں کی پناہ گاہ” قرار دیتے رہے تھے۔
وائٹ ہاؤس نے ملاقات کی کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں، نہ ہی کوئی بیان، ریڈ آؤٹ یا پریس کانفرنس ہوئی۔ البتہ پاکستانی حکومت نے چند تصاویر جاری کیں جن میں شہباز شریف اور منیر کو سنہری اوول آفس میں مذاکرات کرتے دکھایا گیا، جو بتایا جاتا ہے کہ 80 منٹ تک جاری رہے۔ بعد ازاں وہ ٹرمپ کے ساتھ تصویریں کھنچواتے نظر آئے، جو حسبِ معمول انگوٹھا اوپر کرکے مسکرا رہے تھے۔
ایک تصویر میں ٹرمپ وائٹ ہاؤس کا ماڈل دکھاتے ہوئے نظر آئے جبکہ چوتھی تصویر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ قہقہے لگاتے دکھایا گیا۔ صدر ٹرمپ نے اس موقع پر امریکی پرچم کے ساتھ ایک جنگی طیارے کا پن بھی لگا رکھا تھا۔ پاکستان نوازوں نے دعویٰ کیا کہ یہ پن بھارت کے طیارے گرانے کی یاد میں پہنا گیا، مگر حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے یہ پن اس سے پہلے ترک صدر اردوان سے ملاقات کے موقع پر پہنا تھا تاکہ انقرہ کو ایف-16 اور ایف-35 طیارے بیچنے پر زور دیا جا سکے۔
پاکستانی ملاقات سے کچھ دیر پہلے، ٹرمپ نے امریکی دفاعی صنعت کی شان و شوکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی رہنما اور جرنیل امریکی فیکٹریوں میں اسلحہ خریدنے کی قطار میں کھڑے ہیں، تاہم پاکستان کا نام نہیں لیا۔ اس سے پہلے وہ ترک صدر اردوان، جو نیٹو اتحادی ہیں، کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر ملے تھے، اور واشنگٹن ان پر بھی امریکی اسلحہ بیچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
چونکہ دونوں جانب سے کوئی بریفنگ نہیں دی گئی، اس لیے ملاقات کے اصل مقصد پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب ٹرمپ نے حال ہی میں ایک پوسٹ میں طالبان کے قبضے میں موجود بگرام ایئر بیس دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی، اور ساتھ ہی اسلام آباد کو معدنی وسائل کے استحصال کے لیے استعمال کرنے کے امکانات بھی زیرِ بحث ہیں۔ امریکہ نے سعودی-پاک دفاعی معاہدے پر بھی نرم رویہ اختیار کیا ہے، حالانکہ وہ بظاہر اسرائیل کے خلاف ہے جو امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف، جو اس ملاقات میں شامل نہیں تھے، نے بھی کوئی وضاحت نہیں دی بلکہ صرف ایک مبہم سوشل میڈیا پوسٹ کی:“بھارت پر فتح، سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ، اور پاک-امریکہ تعلقات میں بے مثال پیش رفت۔ 2025 کامیابیوں کا سال، الحمدللہ۔ ہائبرڈ نظام کی شراکت داری کی کامیابیوں کا تسلسل۔ اللہ اکبر۔”
یہ ملاقات جو شام ساڑھے 4 بجے طے تھی، آدھے گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوئی کیونکہ ٹرمپ اس وقت تک ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط اور صحافیوں سے بات چیت میں مصروف تھے۔
ٹرمپ نے کہا “میں روس کے اقدامات اور صدر پیوٹن کے طرزِ عمل سے بالکل خوش نہیں ہوں… میں نے سات جنگیں ختم کی ہیں۔ دراصل ایک عظیم رہنما آ رہا ہے، پاکستان کے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل۔ فیلڈ مارشل ایک زبردست آدمی ہیں اور وزیراعظم بھی، اور وہ آ رہے ہیں، اور ہو سکتا ہے وہ ابھی اسی کمرے میں ہوں۔ مجھے نہیں معلوم، کیونکہ ہم دیر کر چکے ہیں… ہو سکتا ہے وہ ابھی آپ کے پیچھے اوول آفس میں موجود ہوں۔”
دوسری طرف موجودہ پاکستانی حکومت کے حامی خوش تھے کہ ملک تقریباً دو دہائیوں بعد پھر وائٹ ہاؤس کی گڈ بکس میں آ گیا ہے۔ یہ وہی ملک تھا جس کے دہشتگردوں کو پناہ دینے پر ٹرمپ نے خود 2012 میں تنقید کی تھی کہ پاکستان ہم سے اسامہ بن لادن کو چھ سال تک محفوظ پناہ دینے پر کب معافی مانگے گا؟
اور یکم جنوری 2018 کو بطور صدر انہوں نے کہا تھا:
“ہم اب پاکستان کو اربوں ڈالر نہیں دیں گے کیونکہ وہ ہماری رقم لیتے اور ہمیں کچھ نہیں دیتے تھے۔ بن لادن ایک مثال ہے، افغانستان دوسری۔ یہ ان کئی ملکوں میں سے ایک تھا جو امریکہ سے لیتے تھے مگر بدلے میں کچھ نہیں دیتے تھے۔ یہ سب ختم ہو رہا ہے!”
اب لگتا ہے کہ یہ سب حقیقتاً ختم ہو چکا ہے، اور پاکستان اپنے معدنی وسائل کے دروازے کھول رہا ہے تاکہ امریکی کاروبار ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کئی میڈیا رپورٹس کے مطابق، پاکستان ایک کرپٹو فرنٹ کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے تاکہ امریکی کمپنیاں منافع کما سکیں۔