تحریر : سمیرا سلیم
عوام سیلاب کے ہاتھوں تباہی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی سے پہلے ہی پریشان تھے اور یہ توقع کر رہے تھے کہ حکومت کسی نہ کسی مد میں ریلیف دے گی تاکہ ان کے دکھوں کا کچھ مداوا ہو سکے، مگر حکومتی بے حسی دیکھیں کہ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے الٹا پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے اک نیا بوجھ ڈال دیا۔
حکومتی رویے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ عام آدمی کو دانے دانے کا محتاج کرنے پر تلی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت سے لیکر موجودہ ہائبرڈ حکومت تک پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کا نتیجہ نہیں ہے۔
عمران خان کے دور حکومت سے شروع کریں تو جولائی 2018 میں عمران خان کی حکومت آنے سے قبل پٹرول کی فی لیٹر قیمت 99 روپے 50 پیسے تھی جو کہ جنوری 2019 میں کچھ کم ہو کر 90 روپے 38 پیسے ہو گئی۔ اس کے بعد کچھ ماہ پٹرول کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا گیا۔
اس وقت عالمی منڈی میں بھی قیمت 54 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 65 ڈالر فی بیرل ہو گئی تھی جس کااثر پاکستان میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت میں ہوا۔ اسی طرح جنوری 2020 میں پٹرول کی فی لیٹر قیمت 116 روپے 60 پیسے ہو گئی تھی۔ پھر اچانک سے عالمی منڈی میں کرونا وبا کے باعث تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں تو پاکستان میں بھی پٹرول 74 روپے 52 پیسے فی لیٹر پر آ گیا۔
جب دنیا کرونا وبا کے اثرات سے نکلنا شروع ہوئی تو اس کے بعد پٹرولیم مصنوعات کو تو جیسے پر ہی لگ گئے۔ پٹرول کی قیمتیں مسلسل بڑھتی گئیں۔ جنوری 2021 میں پٹرول 100 کا ہندسہ کراس کر گیا، پیٹرول کی قیمت فی لیٹر 109 روپے 20 پیسے ہو گئی۔ جبکہ جنوری 2022 میں وہی پٹرول 144 روپے 86 پیسے فی لیٹر میں ملنے لگا۔عمران خان کی حکومت کا ختم ہوئی تو پٹرول کی قیمت 149 روپے 86 پیسے فی لیٹر تھی۔
پی ڈی ایم حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے دو تین ماہ کے اندر اندر 60 روپے کے بڑے اضافے کے ساتھ جون 2022 میں 209 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی۔ بات یہی نہیں رکی بلکہ پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔
پھر یوں ہوا کہ مختلف اقسام کے ٹیکسز شامل ہوتے گئے، ڈالر کی اڑان بھی بے قابو ہونے کے سبب ستمبر 2023 میں پٹرول کی قیمت 331 روپے کی تاریخی بلند ترین سطح تک جا پہنچی۔ ملک میں مہنگائی کی شرح بھی بلند ترین سطح کو چھونے لگی، بے روزگاری اور غربت نے ڈیرے ڈال لیے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 47 فیصد آبادی خط غربت کی لکیر کے نتیجے ذندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ جنوری 2025 میں پٹرول کی فی لیٹر قیمت 256 روپے 13 پیسے تھی، جو کہ اب تک تقریباً 23 روپے اضافے کے بعد 268 روپے 68 پیسے فی لیٹر ہے۔ یہی نہیں مٹی کے تیل کی فی لیٹر قیمت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تو مٹی کا تیل بھی 184 روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے نہیں ہے۔ ابھی پیٹرول اور ڈیزل پر ’’فریٹ مارجن‘‘ یعنی ترسیلی لاگت اور کسٹم ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے جس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ یعنی اب ٹینکرز کا کرایہ، ڈیزل کا خرچ، ڈرائیور کی اجرت، ہائی وے ٹول ٹیکس وغیرہ کےاخراجات بھی عوام اٹھائیں گے ۔
پہلے ہی ایک لیٹر پٹرول پر 94 روپے 89 پیسے جبکہ ایک لیٹر ڈیزل پر 95 روپے 35 پیسے عوام صرف ٹیکسز کی مد میں ادا کر رہی ہے۔ عوام کی جیب سے نکلنے والی یہ رقم حکومتی خزانے میں جاتی ہے، لیکن افسوس کہ عوام کے لئے پھر بھی خزانہ خالی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا کر عوام پر نت نئے وار کئے جا رہے ہیں۔ یہ جو توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے سے نمٹنے کے لئے حال ہی میں 18 کمرشل بینکوں سے 12.25کھرب روپے قرض لیا ہے۔ اس قرض کی ادائیگی بلوں میں ڈیٹ سروس سرچارج کے ذریعے ہونی ہے۔ یعنی یہ بوجھ بجلی کے عام صارفین اٹھائیں گے اور وہ بھی 6 سال تک۔
اب بجلی کے بلوں میں فی یونٹ 3 روپے 23 پیسے سرچارج ادا کریں گے ہم۔ بجلی، گیس، ڈیزل اور پٹرول جب یہ سب مہنگا ہوتا ہے تو اس کا براہ راست اثر افراط زر پر پڑتا ہے، پیداوار اور نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ انڈسٹری متاثر ہوتی ہے، اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ پہلے ہی سیلاب کے باعث خوراک کی فراہمی میں روکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں جس سے مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ حکومت کے معاشی ترقی کے دعوے صرف بیانات تک محدود ہیں۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 3 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی ہے جبکہ مہنگائی میں اضافے سے بھی خبردار کر دیا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ، اب ایندھن اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے عوام کو مہنگائی کے سونامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قرضوں پر ملک چل رہا ہے اور ٹیکس دہندگان کا پیسہ بے دردی سے غیر ملکی دوروں ، وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہو رہا ہے۔ عوام کی اکثریت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہ ملک صرف اشرافیہ کے رہنے کے قابل رہ گیا ہے۔ نوجوان پڑھا لکھا طبقہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہے۔ اس لئے گزشتہ تین برسوں میں تقریباً 29 لاکھ پاکستانی روزگار کے حصول کے لیے بیرون ملک کوچ کرگئے۔ معاشی بے چینی، سیاسی عدم استحکام ، بےروزگاری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے تنگ آ کر لوگ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہیں۔