تحریر : سمیرا سلیم
سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت گرائے جانے کے بعد سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آنے کی بجائے پہلے سے موجود ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹ کر جا رہی ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں تقریبا دو درجن نامور ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا بوریا بستر لپیٹ کر جا چکی ہیں۔
2 سال قبل جون 2023 میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت پی ڈی ایم حکومت نے اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلٹیشن کونسل(ایس آئی ایف سی) تشکیل دی تھی۔ حکومت کا دعوی تھا کہ اس سے بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے مدد ملے گے۔ اب ان کمپنیوں کا جانا اس بات کا عندیہ ہے کہ یہ کونسل مقاصد کے حصول میں بری طرح سے ناکام ہوئی ہے۔
سرمایہ دار کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کرتے وقت اپنے سرمائے کا تحفظ، اس ملک کے سیاسی و معاشی استحکام اور آزاد نظام عدل کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔ اپنے ملک پر نظر دوڑائیں تو کچھ بھی اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔مضبوط اور آزاد عدالتی نظام سے سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں یہ اعتماد ملتا ہے کہ کاروباری معاملات میں ان سے ناانصافی نہیں ہوگی۔
متنازع عام انتخابات اور 26 ویں ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام کو جس طریقے سے حکومتی کنٹرول میں دے دیا گیا ہے ان حالات میں بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔
اب تک پاکستان سے ٹوٹل انرجی، شیل انرجی، ٹیلی نار گروپ، فارماسوٹیکل جائنٹس فائزر اور فرانس کی سنوفی ،ایلی للی، بائر ، پفزر ،مائیکروسوفٹ ، کریم، اوبر اور پراکٹر اینڈ گیمبل جیسی ملٹی نیشنلز نے اپنے کاروبار بند کر دیے ہیں۔ مزید برآں ، کئی غیر ملکی کمپنیاں یا تو مکمل طور پر پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کر رہی ہیں یا کم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ روپے کی قدر میں 50 فیصد کی گراوٹ ، مہنگی بجلی ، ٹیکسز ، مہنگائی کی شرح میں اضافہ، سٹیٹ بینک کی جانب سے سرمائے کو کنٹرول کرنا اور کمپنیوں کو منافع بیرون ملک بھیجنے سے روکنا جیسے اقدامات بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبار کو بند کرنے کی وجہ بنے ہیں۔
حکومت پاکستان نے 2022 سے 24 تک غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کے چکر میں درآمد پر پابندی لگائی جس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ کمپنیاں جو درآمدی خام مال ، مشینری استعمال کرکے اپنی اشیاء بیرون ممالک بھجوا کر ملک کیلئے زرمبادلہ کماتی تھیں وہ کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئیں ۔
صورتحال یہ ہے کہ مالیاتی سال کے پہلے کوارٹر میں ایکسپورٹ 4 فیصد کم ہوئی ہے جبکہ امپورٹ میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بظاہر وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے غیر ملکی دوروں اور بیرون ممالک سے ملنے والی غیر معمولی توجہ ایک مثبت تاثر دیتی ہے، مگر امریکا جیسے ملک کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ داؤ پر لگایا جا رہا ہے اس پر وطن عزیز میں کوئی خاص بات نہیں رہی۔
ادھر برطانوی مالیاتی جریدے فنانشل ٹائمز نے حیران کن انکشاف کیا ہے کہ جنرل عاصم منیر کے مشیروں نے امریکی حکام کو بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی میں 1.2ارب ڈالرز کی لاگت سے بندرگاہ کی تعمیر اور اسے آپریٹ کرنے کی پیشکش کی ہے۔ تاہم سکیورٹی اور انٹیلی جنس ذرائع نے اس خبر کے بعض نکات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیلڈ مارشل کا سرکاری حیثیت میں کوئی مشیر نہیں، نجی افراد یا اداروں کی طرف سے کی جانے والی بات چیت اور تجاویز صرف ابتدائی نوعیت کی ہوتی ہیں، ان تجاویز کو ریاستی اقدام کے طور پر تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے پسنی میں کسی غیر ملکی فوجی اڈے کی بات کو بھی محض افواہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پسنی پورٹ کی ڈیولپمنٹ اور ساحلی علاقوں میں معدنی وسائل سے متعلق مختلف ممالک اور عالمی کمپنیوں سے اور سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہو رہی ہیں تاہم فیصلہ سازی میں قومی مفاد کو مدِنظر رکھا جائے گا۔
بلوچستان میں بحیرہ عرب سے منسلک پسنی کا یہ حساس علاقہ ایران سے تقریباً 160 کلومیٹر اور گوادر سے 112 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ گوادر میں پہلے ہی چائنہ کی مدد اور حمایت سے گوادر پورٹ آپریشنل ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ امریکہ اس بندرگاہ کو تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے تعمیر کرتا ہے اور اگر مستقبل میں اسے فوجی مقاصد کیلئے استعمال کا سوچ لے تو کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اسے روک پائیں گے؟ عوام کو کچھ معلوم نہیں کہ امریکا کے ساتھ تجارت اور معدنیات سے متعلق معاہدے کس نوعیت کے ہیں۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ میں بھی کوئی بحث نہیں کی گئی۔
پارلیمنٹ سپریم ہے کی گردان کرنے والے حکمرانوں نے اسے اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ یہ معاملہ عوامی نمائندوں کے سامنے ہی رکھا جائے ۔ اس ملک کی بدقسمتی دیکھئے کہ حکمرانوں کے ملکی اثاثوں سےمتعلق کئے گئے فیصلوں کی تفصیلات عوام کو غیرملکی جرائد سے ملتی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں غیرملکی میڈیا کیا مزید انکشافات سامنے لاتا ہے۔