متحدہ عرب امارات میں ڈاکٹرز مصنوعی ذہانت (AI)، جینیاتی ڈیٹا اور پیشگوئی پر مبنی صحت کے جدید طریقوں کے ذریعے ایسے امراض کی قبل از وقت نشاندہی پر کام کر رہے ہیں جن کے اثرات عموماً سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں، جیسے دل کے دورے، ذیابیطس کی پیچیدگیاں اور بانجھ پن کے مسائل۔ ماہرین کے مطابق یہ طریقہ کار انسانی جانوں کو بچانے میں انقلاب لا سکتا ہے، تاہم اس کے ساتھ اخلاقی اور نظامی چیلنجز بھی موجود ہیں۔
یہ انکشاف خلیج ٹائمز کے زیر اہتمام "فیوچر آف ہیلتھ کیئر سمٹ 2025” کے دوران “Diagnosing Before Symptoms” کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں کیا گیا۔ کلیولینڈ کلینک کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سامر اللاحم نے کہا کہ پیشگوئی پر مبنی طب میں ڈیٹا کا معیار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا، “اگر ڈیٹا خراب ہے تو چاہے الگورتھم کتنا ہی جدید کیوں نہ ہو، نتیجہ بے فائدہ ہوگا، جیسے جلے ہوئے دانوں سے اچھا پاپ کارن نہیں بن سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پیشگوئی پر مبنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے نظام کو معالج یا انتظامیہ کے بجائے مریض مرکوز ماڈل کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ سینسرز، مسلسل مانیٹرنگ اور الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈز کو ابتدا سے ہی مربوط کیا جانا چاہیے تاکہ حقیقی معنوں میں مؤثر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
ڈاکٹر اللاحم کے مطابق، اسمارٹ واچز اور بایومیٹرک ٹریکرز جیسے جدید آلات دل کی بیماری یا ذیابیطس کی ابتدائی علامات کو پہچان سکتے ہیں، جس سے بروقت علاج ممکن ہو جاتا ہے۔ “یہ نظام علاج کے بجائے پیشگی احتیاط پر مبنی ہے۔
ڈاکٹر احسان المرزوقی، میٹابولک کے شریک بانی، نے بتایا کہ کس طرح پیشگوئی کرنے والی ٹیکنالوجی ذیابیطس کے علاج میں انقلاب لا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “کمپیوٹیشنل کورونری کیلشیم اسکورنگ” جو پہلے مہنگے سی ٹی اسکین کے ذریعے کی جاتی تھی، اب آنکھ کے ریٹینا اسکین سے ممکن ہے، جس سے لاگت میں کمی اور علاج کے عمل میں تیزی آتی ہے۔
اورکڈ فرٹیلیٹی کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر پرتھا داس نے تولیدی طب میں ان ٹیکنالوجیز کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ایک جوڑے کو جینیاتی ٹیسٹ سے اپنے بچوں میں ممکنہ بیماریوں کا علم ہوا جس سے انہیں شدید ذہنی دباؤ اور اخلاقی الجھن کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ “یہ ٹیسٹ زندگی بچا سکتے ہیں، مگر ان کے نتائج بعض اوقات پیچیدہ اخلاقی مسائل کو بھی جنم دیتے ہیں۔” ان کے مطابق مریضوں کو درست رہنمائی اور مشاورت فراہم کرنا ان ٹولز کے ذمہ دارانہ استعمال کے لیے ناگزیر ہے۔
ماہرین نے تسلیم کیا کہ اگرچہ یہ ٹیکنالوجیز صحت کے نظام کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تاہم ان کی قبولیت سست رفتار ہے۔ موجودہ انشورنس نظام، معالجین کی مزاحمت اور پرانے رہنما اصول ان کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔ ڈاکٹر اللاحم نے کہا کہ “جب تک بیمہ کمپنیوں کا نظام علاج کے بعد کی ادائیگی پر مبنی ہے، احتیاطی ٹیکنالوجیز پوری طرح استعمال نہیں ہو سکتیں۔”
اجلاس کے مقررین نے زور دیا کہ AI، جینیاتی ٹیسٹنگ، ویئر ایبل ڈیوائسز اور مسلسل مانیٹرنگ جیسے جدید آلات کو مریض مرکوز نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ضروری ہے تاکہ صحت کی دیکھ بھال کو مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنایا جا سکے۔
یہ کانفرنس “Echoes of Tomorrow | Building the Future of Care” کے موضوع پر منعقد ہوئی، جس میں خطے بھر سے سرکاری و نجی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی اور اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ کس طرح ٹیکنالوجی، اختراع اور تعاون سے طب کے شعبے میں ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔