ڈاکٹر مریم مطر، جو متحدہ عرب امارات کی معروف جینیٹکس ماہر ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے جسم کی حیاتیاتی عمر (biological age) صرف 28 سال ہے، حالانکہ وہ خود 50 سال کی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے اہم اعضاء — جیسے گردے، جگر اور دل — کی حیاتیاتی عمر صرف 16 سال کے برابر ہے۔
وہ خواتین کی ذہنی صحت اور ٹیکنالوجی کے موضوع پر منعقدہ ’ویمن ان ٹیکنالوجی فورم‘ کے چھٹے ایڈیشن میں ’Mental Longevity for Women and Supporting Technologies‘ کے عنوان سے ایک پینل مباحثے میں گفتگو کر رہی تھیں۔
اماراتی جینیٹک ڈیزیز ایسوسی ایشن کی بانی ڈاکٹر مریم نے کہا کہ خواتین ذہانت اور عمر کے لحاظ سے مردوں سے حیاتیاتی طور پر برتر ہیں۔
ڈاکٹر مریم نے اپنی کم حیاتیاتی عمر کا سہرہ ری جنریٹیو میڈیسن (Regenerative Medicine) اور جدید سائنسی ٹیکنالوجی کو دیا، اور کہا کہ یہ “سائنس پر مبنی، حقیقی تحقیق” ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ خواتین کے پاس قدرتی جینیاتی برتری ہوتی ہے، کیونکہ ان کے پاس دو X کروموسوم (XX) ہوتے ہیں، جو انہیں 99.9 فیصد زیادہ تجزیاتی (analytical)” اور بہتر پیش گوئی کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین اوسطاً مردوں کے مقابلے میں پانچ سال زیادہ عمر پاتی ہیں۔
ڈاکٹر مریم کا ری جنریٹیو میڈیسن کی طرف سفر 2011 میں جاپان میں شروع ہوا، جہاں وہ جینیٹکس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے پروفیسر کی توانائی اور طرزِ زندگی سے بہت متاثر ہوئیں — وہ روز صبح 7 بجے پہاڑوں پر چڑھائی کرتے اور پھر کلینک پہنچ کر طلبہ سے پہلے وہاں موجود ہوتے۔اور پھر بزرگ پروفیسر کے انتقال نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ “لوگ کہہ رہے تھے، ’وہ تو بہت جوان تھیں، صرف 85 سال کی۔‘”یہی وہ لمحہ تھا جس نے انہیں ری جنریٹیو میڈیسن کی طرف مائل کر دیا۔
ڈاکٹر مریم، جنہوں نے یکم ستمبر کو اپنی 50ویں سالگرہ منائی، کا کہنا تھا کہ “میرے جسم کی حیاتیاتی عمر 28 سال ہے۔ جبکہ میرے جگر، گردے اور دل کی عمر صرف 16 سال ہے۔ یہ سب ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہے — ایک ایسی سائنس جس کے ذریعے آپ اپنے خلیوں (cells) کی حیاتیاتی عمر کی درست پیمائش کر سکتے ہیں۔”انہوں نے واضح کیا کہ یہ کامیابی ان کی ذاتی ایجاد نہیں بلکہ جدید سائنس کی مرہونِ منت ہے، جو سیلولر ایجنگ (cellular ageing) کو درست طور پر ناپ سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ “ہم خواتین قدرتی طور پر زیادہ ذہین ہیں، زیادہ پیش گوئی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، زیادہ تجزیہ کرتی ہیں ۔ مردوں کے مقابلے تقریباً 99.9 فیصد زیادہ۔انہوں نے وضاحت کی کہ یہ برتری کروموسومل فرق کی وجہ سے ہے۔“خواتین دو X کروموسومز وراثت میں پاتی ہیں — ایک ماں سے اور ایک باپ سے۔ جب کہ مردوں کو صرف ایک X کروموسوم ماں سے ملتا ہے۔ اگر ایک کروموسوم کام نہ کرے تو دوسرا فعال ہو جاتا ہے۔”
انہوں نے مردوں کو ازراہ تفنن مشورہ دیا کہ اگر آپ کے گھر میں کوئی ذہین لڑکا ہے جو تعلیم اور سماجی لحاظ سے اچھا ہے، تو گھر جا کر اُس کی ماں کو ایک پھول ضرور دیں — کیونکہ 99.9 فیصد ذہانت خوبصورت خواتین یعنی ماؤں سے آتی ہے۔”
ڈاکٹر مریم نے بتایا کہ Longevity Institute (قائم شدہ 2019 میں) کی تحقیق کے مطابق عمر درازی پر تحقیق میں خواتین کا کردار نمایاں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ 2000 سے 2019 کے دوران بایوٹیک کمپنیوں میں 27 فیصد شراکت خواتین کی رہی۔“ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ جو بھی خاتون 2021 میں پیدا ہوئی، اگر وہ اپنی صحت کا خیال رکھے تو 97 سال تک زندہ رہ سکتی ہے۔ مقصد صرف زندگی لمبی کرنا نہیں، بلکہ صحت مند زندگی گزارنا ہے — جیسا کہ اللہ نے تقدیر میں لکھا ہے۔”
ڈاکٹر مریم کے مطابق خواتین اوسطاً مردوں سے پانچ سال زیادہ جیتی ہیں۔اس کی وجوہات صرف جینیاتی نہیں بلکہ رویے کی بنیاد پر بھی ہیں۔انہوں نے کہا: “اکثر مرد مایوسی کی حالت میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔”انہوں نے جاپان اور کوریا جیسے ممالک کی مثال دی جہاں خواتین میں خودکشی کی شرح نمایاں طور پر کم ہے۔انہوں نے ایسٹروجن ہارمون کو بھی حفاظتی عنصر قرار دیا۔“ انکا کہنا تھا کہ اللہ نے عورتوں کو ایک قدرتی تحفظ دیا ہے — اسی لیے ہم زیادہ جیتے ہیں۔”
ڈاکٹر مریم نے کہا کہ جو خواتین 42 سال کی عمر میں آخری بار ماں بنتی ہیں، ان کے لمبی اور صحت مند زندگی گزارنے کے امکانات ان خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں جو 28 سال کی عمر میں آخری بار ماں بنتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جدید تولیدی ٹیکنالوجی (reproductive technology) کی بدولت اب خواتین 46 سال کی عمر میں بھی محفوظ حمل ٹھہرا سکتی ہیں، اور بچے میں جینیاتی بیماریوں کی بروقت نشاندہی ممکن ہے۔
ڈاکٹر مریم نے سوشل میڈیا پر موجود غلط طبی معلومات کے بارے میں متوازن رائے دی۔انہوں نے کہا: “یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو غلط معلومات دیتے ہیں، دراصل عوام میں آگاہی پیدا کرتے ہیں، کیونکہ اس سے لوگ درست معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”



