تحریر : رافعہ زاہد
ہر سال اکتوبر کے آخر میں دنیا بھر میں ہالووین منایا جاتا ہے۔پہلے یہ صرف مغربی دنیا کا تہوار سمجھا جاتا تھا، مگر اب مسلم ممالک میں بھی نوجوان اسے جوش و خروش سے مناتے نظر آتے ہیں۔
میں نے آج ہی میں اپنے انسٹاگرام پر ایک پول کیا جس میں 80 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ مقدس یا مذہبی مقامات پر ہالووین منانا غلط ہے۔لیکن کیا صرف جگہ بدلنے سے چیز صحیح یا غلط ہو جاتی ہے کیا مسئلہ مقام کا ہے یا سوچ کا بھی؟
کچھ سال پہلے تک سعودی عرب میں ہالووین جیسے مغربی تہواروں کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔مگر اب “بولیوارڈ ریاض” میں ہزاروں نوجوان ماسک پہنے، کیپ پہنے، ڈراؤنے کاسٹیومز میں نظر آتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق پچھلے سال تقریباً ایک لاکھ سے زائد افراد ہالووین فیسٹیول میں شریک ہوئے۔یہ وہی ملک ہے جو کبھی سخت مذہبی شناخت رکھتا تھا۔سوال یہ ہے کیا یہ تبدیلی ترقی کی علامت ہے یا شناخت کی کمی کی؟اگر ہالووین کو ایسے مقامات، اجتماعات یا ماحول میں منایا جائے جہاں یہ مقامی معاشرتی، مذہبی یا ثقافتی اقدار کے خلاف ہو، تو سوال پیدا ہوتا ہے: کیا اس کی اجازت ہونی چاہیے؟مثلاً، مقدّس شہروں، مذہبی اداروں یا مسجد-مدرسہ کے احاطے میں ایسا ایونٹ مقبول نہیں سمجھے جائیں گے۔اور اگر نوجوان صرف نجی سطح پر تفریح کررہے ہوں، تو کیا فرق آتا ہے۔
پاکستان میں بھی اب یہی منظر دہرایا جا رہا ہے۔یونیورسٹیوں، کیفیز، اسکولز اور برانڈز میں “ہالووین پارٹیز” عام ہو گئی ہیں۔کچھ لوگ اسے صرف تفریح سمجھتے ہیں، مگر دوسروں کے نزدیک یہ “تہذیبی نقالی” ہے۔کچھ سال پہلے تک شاید سو میں سے دس لوگ اس تہوار کو جانتے تھے،مگر آج تقریباً ہر دوسرا نوجوان اکتوبر کے آخر میں “spooky post” ضرور ڈالتا ہے۔
کیا یہ صرف ایک گلوبل ٹرینڈ ہے یا ہم آہستہ آہستہ اپنی پہچان دوسروں کے رنگ میں چھپا رہے ہیں؟ترکی، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر اور لبنان سب جگہ ہالووین اب ایک “ایونٹ” بن چکا ہے۔دبئی کے مالز میں “Halloween Sales” اور “Costume Nights” ہوتی ہیں،جبکہ ملائیشیا اور ایران جیسے ممالک میں اسے مذہبی لحاظ سے غیر موزوں قرار دیا گیا ہے۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کیا ایک ہی تہذیب کے ماننے والے ممالک کے رویے اتنے مختلف کیوں ہیں؟کیا یہ آزادیِ اظہار ہے یا پہچان کا بحران؟
میرا خیال ہے، اصل بحث یہ ہے کہ کیا ہم اپنی اقدار سے اتنے دور جا چکے ہیں کہ ہر مغربی تہوار ہمیں کشش دیتا ہے؟کیا ہم واقعی “آزاد” ہیں یا صرف “ٹرینڈز” کے غلام بن گئے ہیں؟کیا ہمیں لوگوں کو اپنی مرضی سے جینے دینا چاہیے، چاہے وہ اپنی پہچان بھول جائیں؟یا کم از کم اتنا شعور ہونا چاہیے کہ تفریح اور تقلید میں فرق کیا ہوتا ہے۔مغربی دنیا نے کبھی ہماری عید یا میلاد نہیں منائی۔تو ہم کیوں ان کے ہر تہوار کو اپنی “modern identity” سمجھنے لگے ہیں؟
شاید وقت آگیا ہے کہ ہم صرف یہ نہ سوچیں کہ “کیا غلط ہے” بلکہ یہ سوچیں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں“یہ کس کی چال تھی، ہم راستہ بھولے نہیں تھےمگر کچھ خواب ایسے تھے، جو دیکھ کر ہم خود بدل گئے…”





