عدالتی ریکارڈ کے مطابق، متاثرہ شخص کو ایک فون کال موصول ہوئی جس میں کال کرنے والے نے خود کو اُس کے بینک کا نمائندہ بتایا۔ نہایت اعتماد اور پیشہ ورانہ انداز میں بات کرتے ہوئے ملزم نے دعویٰ کیا کہ متاثرہ شخص کے بینک کارڈ کو معطلی سے بچانے کیلئے فوری تصدیق کی ضرورت ہے۔
سرکاری ملازم سمجھ کر متاثرہ شخص نے اپنے بینک کارڈ کی تفصیلات اور او ٹی پی (OTP) شیئر کر دیا اور یہی غلطی اُس کے لیے مہنگی پڑ گئی۔ چند گھنٹوں میں اُس کے اکاؤنٹ سے 24ہزار500 درہم غائب ہو گئے۔
فراڈ کا احساس ہونے پر متاثرہ شخص نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ ملزم نے چوری کی گئی معلومات کا استعمال کرتے ہوئے رقم اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کی۔ پبلک پراسیکیوشن نے اس پر فراڈ، الیکٹرانک دھوکا دہی اور غیر قانونی رقم رکھنے کے الزامات عائد کیے۔
فوجداری عدالت نے اسے مجرم قرار دے کر 20 ہزاردرہم جرمانہ کیا، لیکن چونکہ متاثرہ شخص کو اب بھی رقم واپس نہیں ملی تھی، اس نے سول عدالت میں مقدمہ دائر کرکے ملزم سے ساڑھے چوبیس ہزار درہم کی واپسی،25 ہزار درہم بطور مالی و جذباتی نقصان اور رقم کی ادائیگی تک 5% سالانہ سودکی ادائیگی کی حیرت انگیز شرط رکھ دی ہے ۔
سول عدالت نے کہا کہ چونکہ ملزم کی مجرمیت پہلے ہی ثابت ہو چکی تھی، اس لیے یہ واضح ہے کہ رقم غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی تھی لہٰذا عدالت حکم دیتی ہے کہ متاثرہ شخص کو پوری چوری شدہ رقم واپس دلوائی جائے ۔ سالانہ 3 فیصد سود، مالی و جذباتی نقصان کی مد میں 3ہزار درہم اور ملزم تمام قانونی و عدالتی اخراجات بھی ادا کرے ۔
حکام نے خبردار کیا کہ شہری او ٹی پی، پن کوڈ یا کارڈ کی تفصیلات فون پر کسی کو نہ بتائیں، اور مشکوک کال کی صورت میں فوراً اپنے بینک سے براہِ راست رابطہ کریں۔





