آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کو آج کورونا وائرس کی شکل میں خطرناک چیلنج کا سامنا ہے۔ پاکستان پہلے ہی اپنی 21 کروڑ سے زائد آبادی کیلئے پانی، بجلی اور ہیلتھ کئیر کیلئے جدوجہد کررہا تھا۔
وہ بیماریاں جن پر دنیا بھر میں قابو پا لیا گیا ہے، پاکستان سے ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ ان بیماریوں میں پولیو اور ریبیز شامل ہیں اور اب طبی سہولیات سے محروم اس ملک میں کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔
ایک ہفتہ قبل پاکستان میں کورونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 250 تھی جو آج بڑھ کر 1257 ہو چکی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ٹیسٹ کی کمی کے باعث کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی درست تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
فروری میں کورونا وائرس ایران میں پھیلا تو یہ واضح ہوگیا تھا کہ پاکستان کو کورونا وائرس کے بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ پاکستان کی ایران کے ساتھ مشترکہ سرحد ہے اور ہر ماہ ہزاروں پاکستانی زیارتوں اور کام کیلئے ایران جاتے ہیں۔
اگرچہ ایران میں کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد اس کے ساتھ سرحد بند کر دی گئی تھی، اس کے باوجود سینکڑوں پاکستانی ایران سے اپنے وطن واپس پہنچ گئے۔
کورونا وائرس: پاکستان میں ایک لاکھ افراد کیلئے صرف ایک وینٹی لیٹر
کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے شروع میں درست اقدامات نہیں کیے جا سکے، وزیراعظم کا اعتراف
کورونا وائرس وبا کا خاتمہ کیسے ہوگا؟
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سرحد بند ہونے کے بعد ایران سے آنیوالے پاکستانیوں نے یا تو اہلکاروں کو رشوت دی اور ملک میں داخل ہوگئے یا افغانستان کے راستے پاکستان پہنچ گئے۔
اس دوران ایران سے دیگر ہزاروں زائرین کو پاکستان داخلے سے روکنے کیلئے حکومت نے انہیں تفتان بارڈر پر قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا مگر وہاں تیاری اتنی خراب تھی کہ اس قیام گاہ کو کورونا وائرس کی نرسری قرار دیا گیا۔
آج وزیراعظم عمران خان نے خود اعتراف کیا ہے کہ کورونا وائرس کے 70 فیصد کیسز ایران سے لوٹنے والو ں کے باعث ہوئے ہیں۔
علماء نے جمعہ کی نمازوں کو محدود کرنے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے، کئی ڈاکٹرز حفاظتی سامان کی کمی کے باعث کام کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
ایک ہفتہ قبل پمز میں ینگ ڈاکٹرز نے حفاظتی اقدامات نہ ہونے پر کام سے انکار کر نے کی دھمکی دی تھی۔ کورونا وائرس خطرات کے دوران اس ماہ لاہور میں تبلیغی جماعت کا ڈیڑھ لاکھ لوگوں پر مشتمل اجتماع ہوا جسے بعدازاں حکام کے کہنے پر ملتوی کر دیا گیا۔
اس اجتماع کو ملتوی کرنے سے قبل مختلف ممالک اور علاقوں کے لوگ اس میں شرکت کر چکے تھے، وہ لوگ وہاں سوئے اور انہوں نے مل کر وہاں کھایا پیا بھی۔
یہ اجتماع کورونا وائرس پھیلاؤ کا ایک اور سبب بنا۔ اس میں شریک کئی پاکستانی اس سے متاثر ہوئے ہونگے۔ اسی اجتماع میں کرغستان اور فلسطین کے دو دو شہریوں کو کورونا وائرس لگا۔
جنوبی کوریا کی کورونا وائرس کے خلاف کامیابی میں دنیا کے لیے چار اہم سبق
طبی ماہرین نے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد کورونا کی نئی لہر کا خدشہ ظاہر کر دیا
کورونا وائرس: کیا فلاحی ریاست کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے؟
ملائشیاء میں بھی تبلیغی جماعت کے اسی طرح کے اجتماع میں شرکت کرنیوالے سینکڑوں لوگ کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور پھر انہوں نے یہ مرض مزید آگے بڑھایا۔
اگرخدانخواستہ وائرس مزید پھیلتا ہے تو پاکستان کا پورا نظام صحت اس کے سامنے ڈھیر ہو سکتا ہے۔ دو کروڑ آبادی کے شہر کراچی میں انتہائی نگہداشت کے صرف چھ سو بیڈز موجود ہیں۔
چئیرمین این ڈی ایم اے کے مطابق ملک بھر میں اس وقت 2200 وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کیلئے N95ماسک صرف 15 ہزار ہیں۔
دوسری طرف حفاظتی سامان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی جانب سے ڈیوٹی پر پہنچنے کیلئے پِک اینڈ ڈراپ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث اوبر اور کریم کی سروس جزوی معطل ہونے سے ڈاکٹروں کو اسپتال پہنچنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا وائرس وبا کے دوران انہیں الگ رہائش دی جائے کیونکہ علاج کے دوران وہ اس کے کیرئیر کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ایک سرکاری ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تو ریبیز کی ویکسین نہیں۔ ہم کورونا وائرس کا علاج کرانے کیلئے آنیوالے ہزاروں لوگوں کا علاج کیسے کریں گے؟