دی اٹلانٹک کے سائنس رپورٹر نے سائنسدانوں سے گفتگو کے بعد کورونا وائرس کے خاتمے کے امکانات بیان کیے ہیں جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ کورونا وائرس وبا کے خلاف بہترین کارروائی سے بھی اس کے خاتمہ کا فوری امکان موجود نہیں ہے۔
جب تک دنیا کے کسی ایک ملک میں ایک شہری میں بھی باقی ہو گا، اس بات کا امکان رہے گا کہ دنیا پھر سے اس کی لپیٹ میں آ جائے۔ چین،سنگاپور اور دیگر ممالک جنہوں نے اس وبا پر قابو پایا ہے، وہ سب ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔
ان حالات میں اس وائرس کے خاتمہ کے تین امکانات ہیں۔
پہلا امکان: تمام ممالک اسے چھٹکارا حاصل کر لیں
پہلا امکان یہ ہے کہ دنیا کا ہر ملک اس وائرس سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو جائے، 2003 میں سارس کے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔
کورونا وائرس وبا کا خاتمہ کیسے ہوگا؟
کیا کورونا وائرس مغربی جمہوریتوں کو مستقل تبدیل کر دے گا؟
کورونا وائرس عالمی سطح پر کیا تبدیلیاںلائے گا؟ دنیا کے 12 معروف دانشوروں کی پیش گوئیاں
مگر ان حالات میں جب کورونا وائرس پوری دنیا میں بری طرح پھیل چکا ہے اور کوئی بھی ممالک اس سے کامیابی سے نہیں نمٹ پا رہا تو اس امکان کا حقیقت کا روپ دھارنا مشکل نظر آتا ہے۔
دوسرا امکان: کورونا کے خلاف انسان قوت مدافعت پیدا کر لے
دوسرا امکان یہ ہے کہ کورونا وائرس کے معاملے میں وہی ہو جو ماضی کے وبائی فلو کیا کرتے تھے یعنی لوگ اس کا شکار ہوں اور پھر زندہ بچ جائیں اور اس کے خلاف مدافعت پیدا کر لیں۔
اس امکان کی شاید بھاری قیمت ہو کیونکہ کورونا وائرس کے پھیلنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے، اس کے علاوہ یہ فلو سے زیادہ مہلک ہے۔
یہ وائرس صحت کا نظام درہم برہم کر کے اپنے پیچھے لاکھوں لاشیں چھوڑ کر جا سکتا ہے۔
تیسرا امکان: اس کا پھیلاؤ روکتے ہوئے ویکسین تیار کی جائے
تیسرا امکان یہ ہے کہ دنیا اس وائرس کے پھیلاؤ روکنے کی کوشش کرتی رہے اور اس دوران ویکسین دریافت کرلے۔ یہ سب سے بہترین آپشن مگر طویل اور پیچیدہ ہے۔
اگر یہ فلو کی وبا ہوتی تو ویکسین جلد بن جاتی کیونکہ دنیا کو فلو کی ویکسین بنا نے کا تجربہ ہے مگر کورونا وائرسز کے خلاف ابھی تک کوئی ویکسین موجود نہیں۔
اس پر ماہرین کو آغاز سے کام کرنا پڑ رہا ہے۔ کورونا وائرس کی ویکسین کیلئے ریسرچرز کی شروعات اچھی ہیں کیونکہ اس ویکسین پر ’ماڈرنا اور این آئی ایچ‘نے کلینیکل ٹیسٹنگ شروع کر دی ہے مگر اس کے بعد کے مراحل وقت طلب ہیں۔
جدید تاریخ کی چند بڑی وبائیں جنہوں نے کروڑوں لوگوں کو ہلاک کر دیا
کورونا وائرس لاک ڈاؤن: پاکستانی شہر آلودگی سے پاک ہونے لگے
ابتدائی ٹرائل میں ریسرچرز صرف یہ جان سکیں گے کہ آیا یہ ویکسین محفوظ ہے یا نہیں اور کیا یہ ہمارے مدافعتی نظام کو متحرک بھی کر تی ہے۔
ریسرچرز پھر یہ دیکھیں گے کہ کیا یہ ویکسین کوروناوائرس کو روکتی ہے یا نہیں۔ طبی ماہرین کو اس ویکسین کے سائڈ ایفیکٹس دیکھنے کیلئے جانوروں پر ٹیسٹ اور بڑے پیمانے پر ٹرائلز کرنا پڑیں گے۔
انہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ویکسین کی کتنی مقدار اور کتنی خوراکیں ضروری ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی تصدیق شدہ ویکسین بنانے میں ایک سے ڈیڑھ برس لگیں گے اور ویکسین بننے کے بعد اس کی بڑے پیمانے پر تیاری،ترسیل اور لوگوں کو لگانے میں اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہوگا۔
کورونا وبا کا خاتمہ کیسے ہو گا؟
آنے والے وقت میں کورونا وائرس کے دورانیے اور فریکوئنسی کا دارومدار اس وائرس کی دو نامعلوم خوبیو ں پر ہے۔
پہلی چیز ہے موسم۔ کورونا وائرسز زیادہ تر سردیوں کے انفیکشن ہوتے ہیں جو گرمیوں میں ختم ہوجاتے ہیں۔
یہ چیز موجودہ کورونا وائرس SARS-CoV-2 کیلئے بھی درست ہو سکتی ہے مگر موسمی تبدیلی کورونا وائرس کو شاید اس لیے سست نہ کر سکے کیونکہ اسکے خلاف مدافعت رکھنے والے لوگ بہت کم ہیں۔
دوسری چیز اس وائرس کے خلاف مدافعت کا دورانیہ ہے۔ جب لوگ کم خطرناک کورونا وائرسز کا شکار ہوتے ہیں تو ان میں سردی لگنے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور ان میں ایک برس سے کم عرصہ تک اسکے خلاف مدافعت پیدا ہو جاتی ہے۔
اس کے برعکس جنہیں سارس فلو ہوا تھا، جو کہ عام کورونا وائرسز سے کافی خطرناک تھا، ان میں مدافعت لمبے عرصہ تک رہی۔
موجودہ کورونا وائرس SARS-CoV-2 کو دونوں کے درمیان میں رکھ کر فرض کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وائرس سے صحت یاب ہونیوالے افراد کئی برس تک اس کے خلاف مدافعت دکھائیں گے۔
اس لمبے عرصہ کی مدافعت کے مفروضہ کو ثابت کرنے کیلئے سائنسدانوں کو تجربات کرنا پڑیں گے۔
اگر وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ موجودہ کورونا وائرس سے صحت یاب ہونیوالے بعد میں کئی برس تک اس وائرس سے محفوظ رہتے ہیں تو وائرس کے حملوں کے دوران مدافعت رکھنے والے یہ شہری ”سماجی دوری کے دوران“ کام پر جا سکتے ہیں، دیگر خطرے کا شکار افراد کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں اور معیشت کا پہیہ چلا سکتے ہیں۔
