کورونا مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والی پاکستانی نژاد نرس اریمہ نسرین جو خود اس وبا کا شکار ہو گئی تھیں، کئی ہفتے بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے آج برطانوی اسپتال میں انتقال کر گئیں۔
36 سالہ اریمہ نسرین تین بچوں کی ماں تھیں، وہ 16 برس قبل 2003 میں اس شعبے کا حصہ بنی تھیں۔
ولسل مائنر اسپتال کے چیف ایگزیکٹو رچرڈ بیکن کا کہنا ہے کہ اریمہ نسرین نے ہمیشہ ایک نرس بننے کا خواب دیکھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کسی کی بھی موت ہمیں اداس کر دیتی ہے لیکن جب مرنے والا ہمارا اپنا ہو تو اس تکلیف کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
رچرڈ بیکن نے کہا کہ اریمہ بہت، بہت قابل احترام اور قیمتی ممبر تھیں اور اسپتال کے تمام لوگ بہت غمزدہ اور پریشان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ نرسنگ سے بہت محبت کیا کرتی تھیں، ان کی بہت کمی محسوس کی جائے گی۔
کورونا وائرس کا علاج کرنے والے برطانوی ڈاکٹر کی درد بھری داستان
کورونا وائرس کی شکار برطانیہ کی پاکستانی نژاد نرس اریمہ نسرین کی کہانی
نفیس جذبوں کی داستان: کورونا کا مریض بیٹی سے جھوٹ بولتا رہا
آج کے ہی دن کوئین مادر اسپتال کی ایک اور نرس ایمی اوروک بھی کورونا بیماری کے باعث جان کی بازی ہار گئی ہیں۔
نرس بننے کے بعد ہونے والی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں سمجھتی ہوں کہ میں دوسروں کو اس شعبہ میں لانے کے لیے ترغیب دی سکتی ہوں، میں ہر صبح اس خوشی میں روتی ہوں کہ آخر کار میرا نرس بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا۔
اریمہ کہتی ہیں کہ جب وہ جوان تھیں تو ان کی نانی اماں اسٹروک کے باعث بیمار تھیں اور وہ ان کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں، اسی وقت سے وہ نرسنگ کے شعبہ کو اپنانے کے خواب دیکھتی تھیں۔
ان کی خواہش تھی کہ نرس بن کر وہ دوسروں کی خدمت کریں، وہ ایسے لوگوں کا خصوصی خیال رکھنا چاہتی تھیں جو بوڑھے ہوں اور مشکل کی زندگی گزار رہے ہوں۔
اریمہ کہتی ہیں ’مجھے برطانیہ سے پاکستان لے جایا گیا اور 17سال کی عمر میں شادی کر دی گئی، جہاں میری شادی ہوئی وہ لوگ کہتے تھے کہ مزید تعلیم یا کیریئر کا سوچنے کے بجائے اپنی شادی شدہ زندگی کو کامیاب بنانے پر توجہ دو، اس وقت مجھے لگا جیسے میرا نرس بننے کا خواب مجھ سے بہت دور چلا گیا ہے‘‘ ۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’’میں نے 2003ء میں ولسل مائنر اسپتال میں ہاؤس کیپنگ کی ملازمت حاصل کر لی، اس وقت انٹرویو لینے والا اسٹا ف بہت مہربان تھا جس نے میرے خواب تک پہنچنے کے لیے مجھے سہارا دیا”۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی کولیگز کو اپنے خواب کا بتاتی تھیں اور وہ اس کے حصول کے لیے حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، پھر ایک دن ایسا آیا کہ انہوں نے ہاؤس کیپنگ کی ملازمت چھوڑ دی اور ہیلتھ کیئر اسسٹنٹ بن گئیں۔
اریمہ کا کہنا ہے کہ ’’اس دوران میں 3 بچوں کی پرورش کرتی رہی، میرے خاوند نے اس سلسلے میں بھرپور ساتھ دیا اور 4 برس قبل میں نے نرس بننے کے خواب کی تعبیر پانے کے لیے تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی ‘‘
انہوں نے بہت خوشی سے بتایا کہ گزشتہ سال جنوری کا وہ دن بھی طلوع ہوا جب انہوں نے ولسل مائنر اسپتال کے میڈیکل یونٹ میں نرس بننے کے لیے کوالیفائی کرلیا۔
اریمہ بتاتی ہیں کہ انہیں نرس کے کردار سے انتہائی محبت ہے، وہ ایسے مواقع کو یاد رکھنا چاہتی ہیں جب انہوں نے ایسے مریضوں کے ساتھ وقت گزارا جن کا کوئی خاندان نہیں تھا اور وہ زندگی کے اختتام کی جانب رواں تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ میں نے ان مریضوں کے آخری لمحات میں ہاتھ تھاما اور یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے، مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوتی تھی کہ ضرورت کے وقت کوئی تو ان کے پاس ہے‘‘۔
اریمہ کہتی ہیں کہ ’’ میں سوچنا چاہتی ہوں کہ میں اب دوسروں کو متاثر کر سکتی ہوں، خاص طور پر مسلم کمیونٹی کو، میرے اپنے خاندان کے افراد کی سوچ مجھے دیکھ کر اب تبدیل ہوچکی ہے کیوں کہ میں یونیورسٹی جانے والی خاندان کی پہلی لڑکی ہوں، اب باقی خاندان کی لڑکیوں کو بھی اپنے خوابوں کو پانے کے لیے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جو میرے لیے یقینا حیرت انگیز ہے‘‘ ۔