نیویارک ٹائمز کے مطابق اس وقت لگ بھگ آدھی دنیا لاک ڈاؤن میں ہے۔ مختلف ممالک کی جانب سے چار ارب سے زائد افراد کو گھروں میں رہنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔
کورونا وائرس کیسز میں اضافہ کے ساتھ ہی لاک ڈاؤن لگانے والے ترقی پذیر ممالک کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صرف بھارت میں 25 مارچ کو ایک ارب 30 کروڑ افراد کو تین ہفتوں کیلئے گھروں میں رہنے کا حکم ملا ہے۔
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے پروفیسر ڈیل وٹینگٹن اور ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر زن وو کے مطابق لاک ڈاؤن لگانے سے پہلے غریب ممالک کو چند اہم حقائق پر غور کرنا چاہئے۔
اول،کورونا وبا اسپینش فلو، ایبولا، سارس سے کم مہلک مگر بہت زیادہ پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وبا میں معیشت کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ ماضی کی بیماریوں پر قابو پانے کے تمام حربے اس وبا پر قابو پانے کیلئے کم ہیں۔
کورونا وبا غریب ممالک میں کتنی تباہی پھیلا سکتی ہے؟
کیا دنیا عالمی قحط سالی کی جانب بڑھ رہی ہے؟
کیا کورونا وائرس بچوں کو نقصان نہیں پہنچاتا؟
دوسری بات یہ ہے کہ اس وبا میں دنیا کے بہترین ہیلتھ کئیر نظاموں کو اپنے سامنے بے بس کرنے کی صلاحیت ہے۔ ووہان، اٹلی، اسپین میں جو کچھ ہوا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے بہترین طبی نظام بھی ایسی وبا سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔
غریب ممالک میں یہ وبا اسی پیمانے پر پھیلی تو جلد ہی آئی سی یو اور وینٹی لیٹرز کی کمی ہو جائے گی۔
تیسری بات یہ ہے کہ کورونا وبا لمبے عرصہ تک رہ سکتی ہے۔ چند ماہرین کا خیال ہے کہ یہ وبا موسمی فلو کا حصہ بن جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ وبا تب تک رہے گی جب تک اسکی ویکسین تیار نہیں ہو جاتی۔ اس لیے کورونا وائرس کے تباہ کن معاشی، سیاسی اور سماجی اثرات ہونگے۔
غریب ممالک کیلئے کورونا وبا سے طویل جنگ کی قیمت بہت بھاری ہوگی۔ بہت سے لوگ لمبے عرصہ تک کام کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہیں کھانا خریدنے کیلئے پیسے چاہئیں ہونگے۔
ان ممالک کے پاس ترقی یافتہ ممالک جتنا پیسہ نہیں کہ کھربوں ڈالرز کے پیکج کا اعلان کریں۔ امریکہ کی جانب سے دو ہزار ارب ڈالرز مالیت پیکج کا اعلان کیا گیا ہے۔ غریب ممالک کیلئے ایسا ممکن نہیں۔
غریب ممالک کیلئے تین اہم سبق
پروفیسر ڈیل وٹینگٹن اور پروفیسر زن وو کے مطابق غریب ممالک کو اس بات کا فائدہ ہے کہ وہ کورونا وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کو دیکھ کر چند سبق حاصل کر سکتے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے مختلف پالیسیوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ ترقی پذیر غریب ممالک ان ممالک کی کامیابیوں پر عمل کرسکتے ہیں اور غلطیاں دہرانے سے بچ سکتے ہیں۔
پہلا سبق
غریب ممالک کیلئے پہلا سبق یہ ہے کہ کورونا وبا سے لڑنے کیلئے ایک لمحہ بھی ضائع مت کریں۔ ان کے پاس ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں۔
عالمی طلب میں اضافہ اور مالی مسائل کے باعث غریب ممالک کے پاس اہم طبی آلات و سامان خریداری کے لیے کم مواقع رہ گئے ہیں۔
ان ممالک کو چاہئے کہ وہ اپنے لوگوں کو قرنطینہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کریں۔ اس کے علاوہ وبا کے پھیلاؤ کے وقت عوام تک خوراک کی رسدکو یقینی بنانے پر تیزی سے کام کریں۔
غریب ممالک کو ممکنہ لاک ڈاؤن کی تیاری رکھنی چاہئے اور معاشی سرگرمیاں بند ہونے کی صورت میں غریبوں کی مدد کے منصوبوں پر تیزی سے کام کرنا چاہئے۔
دوسرا سبق
ترقی پذیر غریب ممالک کیلئے دوسرا سبق یہ ہے کہ وہ جاپان، سنگاپور، جنوبی کوریا کی طرز پر وائرس کے پھیلاؤ کو کم کریں تاکہ مقامی اور قومی سطح پر معاشی سرگرمیاں بند کرنے سے بچ سکیں۔
ان ممالک کی جانب سے سماجی و معاشی سرگرمیاں بند کرنے کی بجائے وائرس سے متاثرہ افراد کو تیزی سے تلاش کیا گیا اور اس کے بعد انہیں الگ تھلگ کیا گیا۔
تیسرا سبق
غریب ممالک کیلئے تیسرا سبق یہ ہے کہ کورونا وائرس وبا کے متعلق عوام تک حقیقی معلومات پہنچائی جائیں تاکہ وہ مشکل حالات کیلئے تیار رہیں۔
اس سے لوگ سخت اقدامات جیسا کہ لاک ڈاؤن کیلئے بھی ذہنی طور پر تیار رہیں گے۔ ترقی یافتہ ممالک سے سبق ملتا ہے کہ عوام کو مکمل آگاہ نہ رکھنے کے تباہ کن نقصانات ہوسکتے ہیں۔
اسکی مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنہوں نے کورونا وائرس کے خطرات کو کم ظاہر کیا جس سے وائرس کو پھیلاؤ میں مدد ملی اور لوگوں میں کنفیوژن پھیلی۔
اٹلی کی قیادت نے بھی کچھ ایسا ہی کیا اور وہاں کورونا وبا نے تباہی مچا دی۔ غریب ممالک کیلئے ایسی غلطیاں زیادہ تباہ کن ہوسکتی ہیں۔