اس وقت کورونا وائرس کے ہاتھوں جان کی بازی ہارنے والوں کی اکثریت بڑی عمر پر مشتمل ہے تاہم اکثر والدین یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ یہ وبا بچوں پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں ایلان مسک نے اس حوالے سے ایک ٹوئٹ بھی کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ بچے کورونا وائرس سے محفوظ ہیں۔
اس ٹویٹ نے بہت تنازعات کو جنم دیا لیکن اس دوران یہ سوال پھر ابھر کر سامنے آیا کہ بچوں کو کورونا وائرس سے کسقدر خطرہ لاحق ہے۔
کیا بچے کورونا سے متاثر ہوتے ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے یقیناً کورونا وائرس بچوں کو متاثر کرتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے بچوں کی بیماریوں کے ماہر پروفیسر نے بتایا کہ وبا کے آغاز میں یہی سمجھا جا رہا تھا کہ یہ بچوں کو متاثر نہیں کرتی لیکن اب یہ بات غلط ثابت ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا سے بچے اتنے ہی متاثر ہو رہے ہیں جتنے کہ بڑے البتہ فرق یہ ہے کہ ان کے اندر علامات بہت نرم قسم کی ہوتی ہیں۔
چائنیز سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے رپورٹ کیا ہے کہ 20 جنوری تک سامنے آنے والے 72،314 کورونا کیسز میں 19 برس سے کم عمر کے افراد کی تعداد صرف دو فیصد تھی۔
اسی طرح امریکہ میں 508 افراد کے جائزے کے بعد یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ کسی بچے کی کورونا وائرس کے باعث موت واقع نہیں ہوئی۔
عالمی سطح پر دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بچے کورونا وائرس سے کم متاثر ہوتے ہیں لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بڑی عمر کے افراد شدید علامات کے باعث ٹیسٹ کراتے ہیں جبکہ بچے اس سے متاثر ہو کر خود تندرست ہو جاتے ہیں۔
ساؤتھمپٹن چلڈرن اسپتال میں امراض اطفال کے ماہر سنجے پٹیل کا خیال ہے کہ آغاز میں بالغ افراد چونکہ گھر سے باہر وقت گزارتے تھے اس لیے ان میں یہ وبا زیادہ پھیلی۔
ان کا کہنا ہے کہ اب جبکہ لوگ اپنے گھروں میں وقت گزار رہے ہیں تو کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں کی شرح بڑھ سکتی ہے۔
کورونا بچوں کو مختلف انداز میں کیسے متاثر کرتا ہے؟
آکسفورڈ ویکسین گروپ کے سربراہ اینڈریو پولارڈ کا کہنا ہے کہ یہ حیرت انگیز مشاہدہ ہے کہ شدید امراض کے شکار بچے، جن میں کینسر کے مریض بھی شامل ہیں، بالغ افراد کی نسبت کورونا سے کم متاثر ہوئے ہیں۔
اگرچہ مجموعی طور پر بچوں میں کورونا وائرس سے ہلکی علامات ظاہر ہو کر ختم ہو جاتی ہیں مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بلجیم کی ایک 12 سالہ لڑکی اور لندن کا ایک بارہ سال لڑکا کورونا وائرس کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسی طرح چین میں بھی ایک 14 سالہ بچے کی کورونا سے متاثر ہونے کے بعد موت کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔
چین میں ہونے والی ایک تحقیق نے تصدیق کی ہے کہ کورونا سے متاثر ہونے والے بچوں میں سے تقریباً پچاس فیصد میں بخار، کھانسی، گلے کی خرابی، ناک کا بہنا، چھینکیں اور جسم میں درد جیسی ہلکی علامات ظاہر ہوئیں۔
تحقیق کے مطابق ایک تہائی بچوں میں نمونیا کی علامات سامنے آئیں لیکن شدید بیماری میں بھی انہیں سانس لینے میں تکلیف پیش نہیں آئی۔
ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کے امراض اطفال کے اعزازی کنسلٹنٹ گراہم رابرٹس کا کہنا ہے کہ کورونا سے متاثر بچوں کے سانس لینے والے اوپر حصے، ناک، منہ اور گلہ، متاثر ہوتے ہیں لیکن کورونا وائرس ان کے سانس لینے کے نچلے حصوں یعنی پھیپھڑوں کو متاثر نہیں کرتا۔
چین میں سانس لینے میں تکلیف کا شکار کورونا کے مریض بچے صرف چھ فیصد تھے جبکہ 19 فیصد بالغ افراد کو یہ مسئلہ درپیش ہوا۔
کورونا سے متاثرہ بچے کس لیے بالغ افراد سے بہتر رہتے ہیں؟
برطانیہ کے ایک دمہ اور الرجی کے ایک ادارے کے ڈائرکٹر رابرٹس کا کہنا ہے کہ انسانی خلیوں پر موجود جس خاص قسم کی پروٹین کی وائرس کو ضرورت ہوتی ہے وہ بچوں کے منہ، ناک اور گلے کے خلیوں میں زیادہ موجود ہوتی ہے جبکہ بڑی عمر کے افراد کے پھیپھڑوں میں اس پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
ماہرین ایک اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ بچوں کا مدافعاتی نظام کسی وجہ سے کورونا کے وائرس کو سانس لینے والے اوپری حصے تک محدود رکھتا ہے۔
ایک تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بالغ افراد کے جسم میں موجود مدافعاتی نظام وائرس کے خلاف ضرورت سے زیادہ متحرک ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے فائدہ دینے کے بجائے الٹا پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
بچوں میں چونکہ مدافعاتی نظام ابھی خام حالت میں ہوتا ہے اس لیے وہ وائرل انفیکشن سے لڑنے میں اتنا ہی متحرک ہوتا ہے جتنا ضروری ہے۔
2003 میں سارس وائرس کے پھیلاؤ کے دوران بھی بچوں کے مدافعاتی نظام کی یہی خوبی دیکھی گئی تھی، یہ مشاہدہ تیسری وجہ کو زیادہ معتبر بناتا ہے۔
کیا کورونا سے متاثر بچے اس وبا کو مزید پھیلا سکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ رابرٹس کا کہنا ہے کہ بچوں میں کورونا کی علامات ہلکی ہوتی ہیں جس کے باعث ہم مطمئن رہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس وائرس کے پھیلاؤ میں بچوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
رابرٹس کا یہی ماننا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اسکولز کا بند کرنا بہت ضروری ہے تاکہ بچوں کے ذریعے یہ وبا بڑوں کو منتقل نہ ہو سکے۔
کیا کورونا وائرس مختلف عمر کے بچوں پر مختلف طریقے سے اثرانداز ہوتا ہے؟
چین کی جانب سے سامنے آنے والا ڈیٹا بتاتا ہے کہ شیرخوار بچوں کو کورونا وائرس سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
اس ڈیٹا کے مطابق دس میں سے ایک شیرخوار بچے میں بیماری شدت اختیار کر جاتی ہے تاہم عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ شرح کم ہوتی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پانچ سال یا اسے بڑی عمر کے 100 بچوں میں سے صرف تین میں کورونا وائرس کا حملہ شدید ہوتا ہے۔
دس سال سے بڑی عمر کے بچوں میں کورونا وائرس
رابرٹس کے مطابق ٹین ایجرز کا مدافعاتی نظام کورونا وائرس کے خلاف زیادہ کارآمد نہیں ہوتا، تاہم ابھی انسان اس وائرس کے متعلق ابتدائی سطح کی معلومات رکھتا ہے اس لیے یہ تمام مفروضے ہی سمجھے جاتے ہیں۔
چین میں کی گئی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے نو سال یا اس سے کم عمر کے کسی بچے کو موت رپورٹ نہیں ہوئی جبکہ ایک 14 سالہ بچہ اس وبا کے باعث انتقال کر گیا۔ ایک تیرہ سالہ بچے کے بارے میں بھی رپورٹ آئی تھی کہ وہ کورونا کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گیا تھا۔
کیا کورونا وائرس نوزائیدہ بچوں کو متاثر کرتا ہے؟
اگرچہ سارس اور مرس جیسے وائرس حاملہ خواتین اور ان کے بچوں پر حملہ کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں قبل از وقت پیدائش اور بچے کی صحتمند نشوونما میں رکاوٹ آتی ہے، کورونا وائرس کے معاملے میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔
تاہم یہ مشاہدہ دو چھوٹی سطح کی تحقیقات پر مبنی ہے اس لیے حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی حفاظت اسی طرح کرنی چاہیے جیسے بڑی عمر کے افراد کے لیے ضروری ہے۔