کورونا وائرس سے دنیا بھر کی معیشت کو شدید دھچکا لگنے کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ میں بیروزگاری 1930 کی دہائی کے تاریخی کساد بازاری سے ہونے والی بیروزگاری سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
شرح سود کے معاملات دیکھنے والی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے رکن اور امریکہ کے ڈارٹماؤتھ کالج میں معاشیات کے پروفیسر ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ حالیہ تاریخ میں بیروزگاری کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ماہر معاشیات ڈیوڈ نے برطانوی اخبار دی گارڈین میں لکھا ہے کہ برطانیہ میں بیروزگاری 60 لاکھ افراد تک پھیل سکتی ہے جو افرادی قوت کا 21 فیصد ہے جبکہ 52.8 ملین افراد پورے اٹلانٹک میں بیروزگار ہو سکتے ہیں جو افرادی قوت کا 32 فیصد ہیں.
انکے مطابق کاروبار کا اس پیمانے پر خاتمہ کبھی بھی نہیں ہوا، حکومت نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اقدامات کیے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے اسے مسئلہ کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہے۔
کیا دنیا عالمی قحط سالی کی جانب بڑھ رہی ہے؟
کورونا وائرس سے پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالرز نقصانات کا خدشہ
کورونا کے اثرات کے متعلق دنیا کے بڑے بنکوں کی پیش گوئیاں
انکے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف سٹرلنگ کے ماہر معاشیات ڈیوڈ بیل کے اندازے کے مطابق کووڈ19 میں سرگرمیوں کا خاتمہ اور اس سے بڑھنے والی بیروزگاری کی رفتار 2008 کے معاشی بحران سے ہونے والی بیروزگاری کی رفتار سے بھی 10 گنا زیادہ ہے۔
دونوں معاشی ماہرین کے مطابق اگرچہ ملازمین کی چھٹیوں اور غیر حاضری پر برطانوی حکومت کی جانب سے کمپنیوں کو معاونت فراہم کرنے سے معاملات سنبھلیں گے لیکن بیروزگاری میں پھر بھی اضافہ ہوگا۔
ریکارڈ کے مطابق عالمی کسادبازاری کے دوران امریکہ میں کئی سالوں تک 24.9 فیصد بیروزگاری رہی جبکہ برطانیہ میں یہ شرح 15.4 فیصد رہی۔
مارچ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکی معیشت نے 7 لاکھ ایک ہزار ملازمتوں میں کمی کی ہے جو ماہرین معاشیات کی توقعات سے کہیں زیادہ ہے۔
بیروزگاری کی شرح فروری میں 3.5 فیصد سے بڑھ کر 4.4 فیصد ہوگئی۔ ابتدائی بے روزگاری انشورنس اعداد و شمار، جو سرکاری اعداد و شمار سے پہلے ملتے ہیں ، بتاتے ہیں کہ بے روزگاری پہلے ہی بڑھ رہی ہے جو ایک کروڑ سے زیادہ تک ہوجائے گی۔
معاشی نقصان کا امکان تیزی سے واضح ہونے کی وجہ سے جمعہ کے روز اسٹاک مارکیٹوں میں شدید مندی رہی۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق اسٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس ایک فیصد کم 5،415 پر بند ہوا کیونکہ حصص کی قیمتیں پورے یورپ اور امریکہ میں گر گئیں۔
آئی ایچ ایس مارکیٹ اور چارٹرڈ انسٹی ٹی آف پروکیورمنٹ اینڈ سپلائی (سیپس) کی برطانیہ میں تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ جب حکومت نے معیشت کے بڑے حصوں کو بند کردیا تو ملازمتوں میں نقصانات کا آغاز ہوا۔
سیپس کے گروپ ڈائریکٹر ڈنکین بروک کے مطابق دنیا کے ہرکونے میں انسانی زندگیوں کو بچانے کی جس قسم کی جنگ ترجیحی بنیادوں پر لڑی جا رہی ہے انکے پاس اس سے پیدا ہونے والی تباہی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ معاشی بحران کے امکانات اب واضح ہیں تاہم اسکی مدت اور شدت کتنی ہوگی، اسکا انکشاف وقت خود کرےگا۔
If unemployment rise it will definitely increase in inflation daily wagers will on the road for one time meal and for their survival
Govt should take serious steps to aid the poor people