کورونا وبا کے ہنگام بھارت میں ایک منظم سازش کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے منصوبے کا انکشاف ہوا ہے۔
بھارتی حکام نے کوویڈ 19 کے درجنوں کیسز کو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے ساتھ جوڑ دیا ہے جنہوں نے مارچ کے اوائل میں ایک اجتماع میں شرکت کی تھی۔
بھارتی میڈیا میں یہ خبریں تسلسل کے ساتھ آ رہی ہیں کہ صحت سے متعلقہ حکام ایسے افراد کی تلاش میں ہیں جنہوں نے اس اجتماع میں شرکت کرنے والوں کے ساتھ میل جول رکھا تھا۔
اس بات کا انکشاف ٹائم میگزین کے رپورٹر بلی پریگو نے کیا ہے، وہ اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کے افراد کی پولیس پر حملوں کی جعلی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہیں جس کے باعث مسلمانوں کے خلاف بھارت میں موجود خطرناک فضا کو مزید تقویت مل رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مذہبی تناؤ، جو پہلے ہی عروج پر تھا، اب اسے کورونا وائرس کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔
مودی حکومت نے بھارت میں آزادی صحافت کا خاتمہ کیسے کیا؟
بھارتی گوردوارے نے مدرسے کے 40 مسلمان طلبا کو بھوک سے بچا لیا
بھارت میں کورونا کے شکار ہندو کی آخری رسومات مسلمانوں کے ہاتھوں، ویڈیو وائرل
جواہر لعل یونیورسٹی دہلی کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر عامر علی نے مضمون نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلامو فوبیا کو اب کورونا وائرس کے معاملے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
28 مارچ سے ٹویٹر پر کورونا جہاد کے ہیش ٹیگ سے تین لاکھ کے قریب ٹویٹس کیے گئے جنہیں تقریباً ساڑھے سولہ کروڑ لوگوں نے ٹویٹر پر دیکھا ہے۔
ایکولٹی لیب کا کہنا تھا کہ اس ہیش ٹیگ کے ساتھ پھیلائی جانیوالی نفرت انگیز تحاریر اور کورونا وائرس کے حوالے سے متعدد پوسٹس ٹویٹرقوانین کی بھی خلاف ورزی ہیں جنہیں ابھی تک ہٹایا نہیں گیا۔
ٹویٹر انتظامیہ نے ٹائم کو بتایا کہ وہ اس حوالے سے چوکس رہتے ہیں۔
چند ہفتوں قبل دہلی میں انتہا پسند ہندو گروہوں کے حملوں میں 36 مسلمانوں کے جاں بحق ہونے کے بعد اب نفرت انگیز ٹویٹس کے سامنے آنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں کورونا وائرس کا خوف دیرینہ اسلامو فوبیا کے ساتھ ضم کر دیا گیا ہے۔
اس کے باعث ایک ارب 30 کروڑ آبادی کے ملک بھارت میں 20 کروڑ آبادی پر مشتمل مسلم اقلیت کو ہندو قوم پرست حکمران نشانہ بنا رہے ہیں ۔
نیویارک یونیورسٹی میں میڈیا، کلچر و کمیونیکیشن کے پروفیسر اجن اپادرائے کہتے ہیں کہ عرصہ دراز سے ہندوستان میں مسلمانوں کو سیاست میں انفیکشن قرار دیا جاتا رہا ہے، اب اس دیرینہ امیج اور کورونا وائرس کی پریشانی کو جوڑ دیا گیا ہے۔
ٹویٹر پر کورونا جہاد کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک مشہور جھوٹ پھیلا گیا، ایک ویڈیو میں مسلمان شخص کو دکھایا جاتا ہے جو دہلی کے اجتماع سے تعلق رکھتا ہے اور وہ جان بوجھ کر ایک شخص پر کھانس رہا ہے۔
اس ویڈیو کو "ایسے باطل لوگ ‘‘ کے عنوان سے کورونا جہاد اور تبلیغی جماعت وائرس کے ہیش ٹیگ سے پھیلایا گیا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ ویڈیو انڈیا میں نہیں بلکہ تھائی لینڈ میں فلمائی گئی۔
اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ وہ شخص دہلی اجتماع میں شریک تھا لیکن وہ ٹویٹ 4200 ری ٹویٹس اور سینکڑوں جوابات کے ساتھ تین اپریل تک ٹویٹر پر موجود ہے جسے ہٹایا نہیں گیا۔
کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کیا مسائل درپیش ہیں؟
فیس بک اور ٹویٹر پر ایک اور ویڈیو پھیلائی گئی ہے جس میں مسلمانوں کو دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر چھینک رہے ہیں۔
اسی طرح ایک اور ٹویٹ میں مسلمان شخص کا کارٹون بنا کر پھیلایا گیا جس پر کورونا جہاد کا لیبل لگا ہے، اس ٹویٹ کو ٹویٹر انتظامیہ نے اپنی پالیسی کیخلاف قرار دیتے ہوئے ہٹا دیا ہے۔
ایکولٹی لیب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھنومزی سندراجن نے بتایا کہ کورونا جہاد کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ ہندوؤں کو نشانہ بنانے کے لیے مسلمان کورونا وائرس کو ہتھیار بنا رہے ہیں۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کے پروفیسر محمد علی کہتے ہیں کہ گزشتہ سال اپریل میں دو تہائی اکثریت سے دوبارہ منتخب ہونیوالی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی ) نے مسلمانوں کیخلاف حملے تیز کر دیے ہیں، ٹوئٹر اس مہم کا ایک حصہ ہے۔
سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں بائیو جہاد اور کورونا جہاد کو مسلسل پھیلایا جارہا ہے اور اس سوچ کو لوگ بھی اب قبول کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاپولیشن جہاد ایک ایسی اصطلاح ہے جسے قوم پرست ہندو اپنے ہر پیغام میں دہراتے ہیں، اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمان اکثریت میں آنے کے لیے ہندوؤں کے مقابلے میں بچے زیادہ پیدا کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح لو جہاد کی بات کی جاتی ہے جس میں مسلمان مرد محبت کے رشتے میں ہندو لڑکیوں کو پھنسا کر شادی کرتے ہیں اور انہیں اسلام قبول کرایا جاتا ہے۔
تین اپریل کو تبلیغی جماعت کا تنازعہ اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ اس جماعت کے چند اراکین کیخلاف قرنطینہ کی خلاف ورزی پر انڈین نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کیے جائیں گے۔
نیویارک یونیورسٹی میں میڈیا، کلچر و کمیونیکیشن کے پروفیسر اجن اپادرائے کہتے ہیں کہ کورونا وائرس مہم کے علاوہ بھی یقینی طور پر اب بھارت مسلمانوں کے لیے ایک خطرناک جگہ بن چکا ہے ۔