آٹا، چینی بحران اور سبسڈی میں اربوں روپے کے اسکینڈل کی انکوائری رپورٹ سامنے آ گئی ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان کے ہمدم و ہمراز جہانگیر ترین سمیت پارٹی کے کئی رہنماؤں اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کے بیٹے مونس الٰہی کا نام سامنے آ گیا ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس قسم کی رپورٹ پبلک نہیں کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پہلے دن سے احتساب کی بات کرتے آئے ہیں۔ وزیراعظم نے رپورٹ پبلک کرکے مثال قائم کردی ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ مونس الہیٰ اور جہانگیر ترین نے 25 ارب روپے کی سبسڈی لی۔ میں سمجھتا ہوں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ضرور ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ شوگر ایکسپورٹ کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہوا، جس کا فائدہ اٹھایا گیا۔ سبسڈی جن افراد نے لی رپورٹ میں ان کے نام دیئے گئے ہیں۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والے جے وی ڈبلیو، آر وائی کے گروپ شامل ہیں۔ گندم بحران میں وزیر خوارک اور سیکریٹری کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والوں میں شریف گروپ اور اومنی گروپ بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مندرجات
حکومتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2014 سے جون 2019 تک پنجاب حکومت کی جانب سے چینی برآمد پر سبسڈی دی گئی، اسی عرصے میں چینی کی قیمت میں سولہ روپے فی کلو کااضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں حکومت کی جانب سے 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے
جہانگیر ترین گروپ نے چینی پر دی جانے والی کل سبسڈی کا 22 فیصد حاصل کیا ہے، ان کے جے ڈبلیو ڈی گروپ نے 56 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
جہانگیر ترین کے علاوہ وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے گروپ نے 35 کروڑ سے زائد کی سبسڈی لی جبکہ ال موئز گروپ نے 40 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی.
حکومتی رپورٹ کے مطابو اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کے فرزند مونس الہیٰ گروپ نے چالیس کروڑ روپے پر ہاتھ صاف کیا۔
رپورٹ کے مطابق چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والے بیشتر افراد وفاقی حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے زرعی پالیسوں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔