کورونا وائرس کی وجہ سے برازیل اور ایمازون کے علاقے میں آباد مقامی باشندوں کے ختم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، ان مقامی باشندوں کی تعداد اسپین اور فرانس کی مشترکہ آبادی کے برابر ہے۔
انفلوئنزا وائرس سے جنم لینے والی سانس کی بیماریوں سے برازیل کی یہ قدیم آبادیاں پہلے ہی اموات کا شکار ہیں، یہ باشندے برازیل کی کل آبادی کا 0.5 فیصد ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وبا ابتدائی طور پر برازیل کے صنعتی علاقے ساؤ پاؤلو میں پائی گئی تھی تاہم اب یہ پورے ملک میں پھیل چکی ہے جن میں ایمازون کی حدود بھی شامل ہیں، 5 اپریل تک برازیل میں 11 ہزار کیسز کی تصدیق ہوئی جبکہ 486 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔
فیڈرل یونیورسٹی آف ساؤ پاولو کی ریسرچر ڈاکٹر صوفیہ کو خدشہ ہے کہ آبائی باشندوں میں وباء کے پھیلنے کے باعث ان کا مکمل صفایا ہو سکتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے یہ افراد ایسے ہی شکار ہو سکتے ہیں جیسے ماضی میں سانس کی بیماریاں پھیلنے والی بیماریو سے متاثر ہو چکے ہیں۔
1960 کی دہائی میں خسرے کی وباء سے وینیزویلا کی سرحدسے متصل علاقے میں ینومامی برادری کے 9 فیصد متاثرہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
برازیل کے صدر نے کورونا وائرس کے مسئلے کو میڈیا کی چال قرار دے دیا
امریکہ میں کورونا کیوں پھیلا؟ نئے حقائق سامنے آ گئے
کورونا کی ویکسین غریب افریقیو ں پر آزمانے کی تجویز پر دنیا برہم
ڈاکٹر صوفیا نے کہا کہ ایسے علاقوں میں وباء کے دوران ہر کوئی بیمار ہو جاتا ہے جسکے بعد ضعیف العمر افراد کی موت ہو جاتی ہے اور سماجی ڈھانچہ بکھرنے لگتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ برادریاں چھوٹے ٹولوں میں بٹ کر جنگلوں میں پناہ لینے پر غور کر رہی ہیں، اسی طریقہ کار سے انہوں نے ماضی میں آنے والی وباؤں سے چھٹکارا پایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ مجھلیوں اور دیگر شکار کے لیے ضروری سامان کا بندوبست کر کے خیمے لگا کر وائرس ختم ہونے تک کے ایام میں زندگی بسر کریں گے۔
کئی برادریاں ایسی ہیں جن کے پاس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے بنیادی سازوسامان جیسا کہ صابن یا ہیڈ سینیٹائزرز تک دسترس نہیں ہے۔
یہ لوگ چھوٹے اور ایک دوسرے سے متصل کواٹروں میں رہتے ہیں اور آپس میں کھانے پینے کے برتنوں کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں جس سے وباء بہت جلد ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے، اب انہیں برتنوں کے تبادلے کو روکنے اور خود کو تنہائی میں رکھنے کی تجاویز دی جا رہی ہیں۔
چونکہ وباء پورے ملک میں پھیل رہی ہے تو سوال جنم لے رہا ہے کہ کیا حکومت ان قدیم برادریوں کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات کرے گی۔
برازیل کے صدر یہ کہہ چکے ہیں کہ جن زمینوں پر یہ باشندے بستے ہیں وہ بہت بڑی اور قدرتی وسائل سے بھرپور ہیں اور یہ وسائل پورے ملک کی آبادی میں تقسیم ہونے چاہئیں۔
صدر کے ان نظریات کے باعث مقامی باشندے انہیں اپنا دشمن گردانتے ہیں۔
اگرچہ کئی گورنرز اور میئرز وبا کا پھیلاؤ کم کرنے کے لیے پابندیاں لگا چکے ہیں مگر برازیل کے صدر کورونا وائرس کو زکام کی معمولی بیماری سمجھتے ہیں اور سکولوں سمیت شاپنگ سینٹرز کھلے رکھنے کے حامی ہیں۔
حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہ ہونے پر آبائی تنظیموں نے اپنی برادریوں کو دوسرے شہروں میں سفر کرنے سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے علاقوں سے باہر سے آنے والوں کو اندر نہ آنے دیں۔
کراجا آبادی کے لوگوں کی طرف سے ماٹو گراسو میں ایک روڈ پر بینر لگایا گیا ہے جس پر الفاظ تحریر ہیں کہ "جو بھی حقیقی دوست ہے وہ ہماری مجبوری سمجھتا ہے، چلیں کورونا وائرس کو دیہاتوں سے دور رکھیں۔”
ماہرین ان آبائی گروہوں میں بھی وائرس پھیلنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں جو پہلے ہی رضاکارانہ طور پر اکیلے رہتے ہیں، ان باشندوں کے حوالے سے قائم کردہ فیڈرل ایجنسی کے مطابق برازیل کے امیزون میں 107 وہ گروپس ہیں جن کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی انہیں اس سے کوئی سروکار ہے۔
تاہم غیر قانونی درختوں کی کٹائی والے اور شکار کرنے والے وہاں کام کر رہے ہیں، آبائی افراد کی تنظیموں اور این جی اوز کے مطابق حالیہ سالوں میں وہاں بیرونی مداخلت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
زیادہ تر گروپس کورونا سے بچاؤ کے لیے دوسرے شہروں میں جانے سے گریز کرنے پر متفق ہیں. تاہم کچھ کا خیال ہے کہ منڈی تک رسائی نہ ہونے سے بھوک میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کولمبیا اور وینزویلا کی سرحدوں سے منسلک Sao Gabriel da Cachoeira میں ہزاروں کی تعداد میں مقامی گروپس شہر آنے کے لیے کشتیوں میں سفر کرتے ہیں، یہ سفر ہر ماہ پینشن کی وصولیوں اور کیش ٹرانسفر کے حکومتی پروگرام کے لیے ہوتا ہے۔
ریو نیگرو کی فیڈریشن آرگنائزیشن کے صدر کہتے ہیں کہ مقامی کمیونیٹیز پریشان ہیں. وہ کہتے ہیں کہ انہیں دیہاتوں تک خوراک لیجانی ہے تاکہ وہ لوگ ان نازک حالات میں باہر نہ آئیں۔
اس علاقے کے اہم ترین اسپتال میں کوئی وینٹیلیٹر نہیں ہے اور شدید بیمار کی زندگی بچانے کے لیے اسے ایمیزوناس کے دارالحکومت میں کشتی کے ذریعہ 11 ہزار کلومیٹر کی دوری پر بھجوانا ہو گا۔