• Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
پیر, ستمبر 22, 2025
  • Login
No Result
View All Result
NEWSLETTER
Rauf Klasra
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
No Result
View All Result
Rauf Klasra
No Result
View All Result
Home انتخاب

جہانگیر ترین کا عمران خان سے تعلقات میں رخنہ آ جانے کا اعتراف

by sohail
اپریل 7, 2020
in انتخاب, پاکستان, تازہ ترین, سکینڈلز
0
جہانگیر ترین کا عمران خان سے تعلقات میں رخنہ آ جانے کا اعتراف
0
SHARES
4
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی اور شوگر سبسڈی اسکینڈل کی زد میں آنے والے جہانگیر ترین نے نے اعتراف کیا ہے کہ عمران خان کے ساتھ جتنا اچھا تعلق تھا اب ویسا نہیں ہے، یہ بات سچ ہے مگر میں پھر بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ دیگر وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ چھ ماہ پہلے ان کے اعظم خان کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے تھے۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا حصہ ہوں اور پی ٹی آئی کا حصہ رہوں گا۔ اگر میرے تعلقات عمران خان کے ساتھ انیس بیس ہوتے ہیں تو دوبارہ ٹھیک ہو جائیں گے۔

جہانگیر ترین نے سبسڈی کیوں لی؟

سینئر اینکر ندیم ملک کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے سبسڈی ضرور لی ہے جو شوگر ملز کو ملی ہے لیکن اس کی پالیسی حکومت نے بنائی اور انہوں نے پالیسی کے تحت ہی سبسڈی حاصل کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پالیسی نہ بناتی، یہ سوال ان سے پوچھا جائے جنہوں نے پالیسی بنائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کی 20 فیصد چینی کی پیداوار ضرور کر رہا ہوں مگر اس کے پیچھے میری 30 سال کی محنت ہے، پاکستان کے قوانین کے مطابق 40 فیصد تک پیداوار کر سکتے ہیں۔

جہانگیر ترین اور اسد عمر

 جہانگیر ترین نے کہا کہ اسد عمر 2018 میں ای سی سی کی سربراہی کر رہے تھے، انہوں نے ایک ملین ٹن برآمد کرنے کی اجازت دی، انہیں اس وقت بتایا گیا ہو گا کہ ایک ملین ٹن شوگر ملک میں اضافی ہے۔

جب جہانگیر ترین سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے اسد عمر کے اوپر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسد عمر خود فیصلہ کرنے والے شخص ہیں اور ان کے اوپر کون اثر انداز ہو سکتا ہے، میری اس موضوع پر کبھی بھی ان سے بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ای سی سی کے ممبران میں کسی سے بات ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھدار آدمی ہوں اور محتاط رہتا ہوں، نہ بات کرنا بنتا تھا اور نہ ہی میں نے بات کی ہے، حکومت جو فیصلہ کرے گی شوگر ملز مالکان اسی طرح کام کریں گے۔

جہانگیر ترین سے جب سوال کیا گیا کہ اسد عمر سے وزارت خزانہ آپ کی وجہ سے چھینی گئی تو انہوں نے صاف انکار کیا اور بتایا کہ عمران خان بڑے عرصے سے دیکھ رہے تھے اور جو فیصلے وہ کرانا چاہتے تھے اسد عمر ویسے نہیں کر رہا تھا۔ اس لیے یہ وزیر اعظم کی صوابدید ہے، آج بھی کابینہ میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

جہانگیر ترین سے جب معیشت کے حوالے سے حکومتی ناکامیوں پر سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ مجھ پر کیوں تنقید کر رہے ہیں۔

شوگر ایسوسی ایشن سے بھی پوچھیں

جہانگیر ترین نے کہا کہ میرا مارکیٹ میں 20 فیصد شیئر ضرور ہے، میری 6 شوگر ملز ہیں مگر 74 دیگر لوگوں کی بھی شوگر ملز ہیں ان سے بھی پوچھ لیا کریں۔ میں ایسوسی ایشن نہیں چلاتا۔

انہوں نے کہا کہ شوگر ایسوسی ایشن کے خود مختار لوگ ہیں جو الیکشن کے ذریعے آتے ہیں۔کبھی ان کو بھی بلوا کے پوچھ لیا کریں، آج کل وہ ٹی وی پر آ رہے ہیں اور اپنا موقف پیش کر رہے ہیں۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ ایکسپورٹ کرنے سے پاکستان میں چینی کی قلت نہیں ہوئی۔

انکوائری رپورٹ لکھنے والوں کو مارکیٹ کی سمجھ نہیں ہے

جہانگیر ترین سے سوال کیا گیا کہ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ چینی کی قیمت 110روپے فی کلو تک پہنچ جائے گی تو انہوں نے کہا کہ رپورٹ لکھنے والے ایف آئی اے اور ایسے ہی اداروں کے لوگ ہیں اور انہیں مارکیٹ کی صورتحال کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا اس رپورٹ کے اندر کچھ بھی نہیں ہے، اس کے اندر ایک ٹیبل بنا دیا ہے جس میں لکھ دیا گیا ہے کہ کن لوگوں نے سبسڈی حاصل کی، میرا نام میڈیا میں زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے اس لیے سارے لوگ میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ حکومت ایک پالیسی بناتی ہے، ملز مالکان اس پالیسی کو استعمال کر کے ایکسپورٹ کرتے ہیں اور ری بیٹ حاصل کرتے ہیں، ری بیٹ منافع نہیں ہوتا ہے۔

جہانگیر ترین نے مزید کہا کہ انہوں نے ن لیگ کی حکومت میں اڑھائی ارب اور اب اپنی حکومت میں 55 کروڑ روپے کا ری بیٹ حاصل کیا، جہانگیر ترین نے ٹیکس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں وہ 23 ارب روپے ٹیکس ادا کر چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اپنی شوگر ملز کے لیے 8 فیصد گنا خود اگاتا ہوں اور باقی گنے کی خرید کرتا ہوں، گنے کی قیمت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ کسانوں کو گنے کی مکمل قیمت ادا کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ1992ء میں پہلی شوگر مل لگائی تھی اور 2002ء میں سیاست میں آیا ہوں، سیاست میں آنے سے پہلے ہی شوگر مل کا مالک تھا۔

کیا 2013 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی؟

جہانگیر ترین سے سوال کیا گیا کہ آدھی پی ٹی آئی اس وقت اس بات پر بہت خوش ہے کہ اچھا ہوا جہانگیر ترین کو سزا ملی، آپ نے پارٹی کو قابو کر کے رکھا ہوا تھا۔انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نظریہ کا فرق ہے اس لیے آدھی پارٹی ناخوش ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2013ء کے الیکشن میں ہم بری طرح ہار گئے، دھاندلی دھاندلی کا ہم نے شور کیا، یہ دھاندلی چند سیٹوں پر ہوئی تھی، میں عمران خان کے پاس گیا اور کہا کہ جس طرح پچھلے الیکشن میں ہم نے ٹکٹ دیے ہیں اس طرح ہم الیکشن نہیں جیت سکیں گے۔

ان کے مطابق عمران خان نے پوچھا کہ آپ کامطلب کیا ہے؟ میں نے ان کے سامنے ڈیٹا رکھا اور کہا کہ پنجاب میں ہم جو سیٹیں ہارے ہیں ان میں 50 فیصد میں ہم دوسرے نمبر پر بھی نہیں آئے تھے۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ میں نے امیدوار تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی، پنجاب میں جب تک سیاسی خاندانوں کو پارٹی میں لے کر نہیں آئیں گے تب تک آپ وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی میں یہی بات میرے ساتھ مخالفت کی وجہ بنی اور جو میری مخالفت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے پارٹی ٹیک اوور کی ہوئی ہے۔

جہانگیر ترین نے مزید کہا کہ اس بار 67 کے قریب ہم نے سیٹیں جیتی ہیں جن میں 80 فیصد لوگ سیاسی خاندانوں سے ہیں۔ ان میں 60 فیصد وہ ہیں جن کا سیاسی خاندانوں سے تعلق ہے اور انہوں نے 2013 کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کو جوائن کیا اور ان میں زیادہ تر کو میں جوڑ توڑ کر کے لایا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے عمران خان کو مثال دی تھی کہ ایک ایک موتی چن کے لانا پڑتا ہے جو وزیر اعظم کے گلے کا ہار بنتا ہے، اللہ تعالی کا شکر ہے کہ عمران خان وزیر اعظم بن گئے اور پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی ورنہ سب یہی کہتے تھے کہ بے شک وفاق میں پی ٹی آئی حکومت بنا لے گی مگر پنجاب شریفوں کا ہے۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ شوگر کی انکوائری رپورٹ میں میرے اوپر کوئی غلط چیز نہیں آ رہی ۔ میں نے صرف وہ سبسڈی لی جس کا فیصلہ حکومت نے کیا تھا۔ یہ سوال اس سے پوچھیں۔

عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنوانے میں جہانگیر ترین کا کتنا ہاتھ ہے؟

جہانگیر ترین سے سبسڈی کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ پنجاب سے یہ فیصلہ کیسے کرایا گیا؟ خسرو بختیار کے بھائی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ان کے ذریعے اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی یا پھر آپ نے عثمان بزدار کو چائے پر بلاکر ان سے گزارش کی گئی؟

جہانگیر ترین نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عثمان بزدار کوئی کام نہیں کرتے تھے، ابھی بھی اہم چیزوں پر عمران خان سے مشورہ کرتے ہیں۔ اس سبسڈی کی منظوری کسی ایک شخص نے نہیں بلکہ پنجاب کابینہ نے دی تھی۔

جہانگیر ترین سے جب یہ سوال کیا گیا کہ عثمان بزدار کے اوپر جہانگیر ترین نے ہاتھ رکھا ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ جب عمران خان نے عثمان بزدار کا وزیراعلیٰ کے لیے انتخاب کیا تو ان کی مدد کرنا میرا فرض تھا، یہ عمران خان کا فیصلہ تھا اور میں ان کو سپورٹ کرتا تھا، عثمان بزدار، عمران خان کا ذاتی انتخاب تھا۔

جہانگیر ترین سے سوال کیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ عثمان بزدار کو کوئی خاص پسند نہیں کرتی تھی اور وہ کسی قابل شخص کو آگے لانا چاہتی تھی، پی ٹی آئی کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں بھی یہ بات ہوتی تھی۔

اس پر جہانگیر ترین نے کہا کہ جب عمران خان کے سامنے یہ بات ہوتی تو وہ کہتے تھے کہ متبادل شخص بتائیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کوئی نامور شخصیت نہیں ہے جس کو متبادل کے طور پر لایا جاتا۔

اینکر پرسن ندیم ملک نے جواباً کہا کہ لوگ تو موجود ہیں مگر کسی طاقتور کو سنٹر میں کوئی بیٹھانا بھی نہیں چاہتا، نواز شریف نے بھی اپنے بھائی کے علاوہ غلام حیدر وائیں کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا تھا اس پر جہانگیر ترین نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی حکومت پر مشکل وقت آیا تو غلام حیدر وائیں نہیں سنبھال سکے تھے۔

کیا جہانگیر ترین 56 کروڑ روپے واپس کر دیں گے؟

جہانگیر ترین سے جب سوال کیا گیا کہ اگر آپ کو عمران خان یہ کہیں کہ یہ 56 کروڑ روپے واپس کر دیں تو کیا آپ یہ رقم واپس کر دیں گے؟ جہانگیر ترین نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، یہ حکومت کی پالیسی تھی اور ہم نے اس کے مطابق کام کیا ہے، میں 56 کروڑ روپے واپس کر دوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے کوئی غلط کام کیا تھا جبکہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ تین ارب میں 56 کروڑ میرا حصہ تھا باقی لوگوں سے بھی جا کر پوچھیں۔

ندیم ملک نے جہانگیر ترین کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ باقی میں بھی زیادہ آپ کی جماعت کے لوگ ہیں جن میں خسرو بختیار، ہمایوں اختر اور چوہدری برادران وغیرہ شامل ہیں۔ اس پر جہانگیر ترین نے کہا ان کے علاوہ زیادہ تر کا ہماری پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، حکومت نے پالیسی بنائی ہے، حکومت پالیسی نہ بناتی۔

جہانگیر ترین سے سوال کیا گیا کہ خسرو بختیار یا اس کے بھائی کو 4 ارب روپے کے قریب 5 برسوں میں سبسڈی ملی جس پر جہانگیر ترین نے کہا کہ انہوں نے زیادہ چینی ایکسپورٹ کی ہے جس کی وجہ سے انہیں زیادہ ری بیٹ ملا ہے۔

جہانگیر ترین سے جب سوال کیا گیا کہ آٹے کے بحران سے کس نے پیسے کمائے تو انہوں نے کہا کہ یہ ان کا کاروبار نہیں ہے اس لیے وہ کچھ نہیں کہہ سکتے مگر اتنا جانتے ہیں کہ آٹے کا بحران بہت تھوڑے وقت کے لیے تھا۔

جہانگیر ترین سے سوال کیا گیا کہ جن جن کا انکوائری میں نام آیا ہے اگر عمران خان کوئی ایسا فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ان ملز کے اوپر کوئی ایڈمنسٹریٹر بیٹھا دیں تو پھر آپ کیا کریں گے؟

جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان ایسا کیوں کریں گے؟ جہانگیر ترین نے سوال پوچھا کہ کیا پاکستان میں کاروبار کرنا جرم ہو گیا ہے؟ پاکستان میں بزنس کرنا جرم نہیں ہونا چاہئے، بزنس کریں گے تو لوگوں کو روزگار ملے گا۔ ٹیکس اکٹھا ہو گا، ذوالفقار علی بھٹو نے جب نیشلائزیشن کی تھی تب بہت نقصان ہوا تھا اور اگر ایسا کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو اس سے بھی زیادہ نقصان ہو گا۔

اپنے انٹرویو کے آ خر میں جہانگیر ترین نے کہا کہ عمران خان میری پارٹی کا چیئرمین ہے، میں عمران خان  کے ساتھ کھڑا تھا، چاہے کچھ بھی ہو جائے میں عمران خان کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔

(یہ انٹرویو سما ٹی وی پر ندیم ملک لائیو میں نشر ہو ا ہے)

Tags: جہانگیر ترین
sohail

sohail

Next Post
سائنسدانوں کو سو سال پرانی ویکسین میں کورونا کے علاج کی امید

سائنسدانوں کو سو سال پرانی ویکسین میں کورونا کے علاج کی امید

سپریم کورٹ کا کورونا کی وجہ سے رہائی پانیوالے قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کا حکم

سپریم کورٹ کا کورونا کی وجہ سے رہائی پانیوالے قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کا حکم

کورونا وبا میں پھیلتی غربت نے سابق صدر پاکستان کے بیٹے کو بھی رلا دیا

کورونا وبا میں پھیلتی غربت نے سابق صدر پاکستان کے بیٹے کو بھی رلا دیا

ریاست کو تنقید برداشت کرنی چاہیے، سپریم کورٹ

ریاست کو تنقید برداشت کرنی چاہیے، سپریم کورٹ

نیویارک، کورونا وائرس ایمرجنسی کے دوران چوریوں، لوٹ مار میں بڑا اضافہ

نیویارک میں کورونا وائرس ایمرجنسی کے دوران چوریوں، لوٹ مار میں بڑا اضافہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • About
  • Advertise
  • Careers
  • Contact

© 2024 Raufklasra.com

No Result
View All Result
  • Home
  • Politics
  • World
  • Business
  • Science
  • National
  • Entertainment
  • Gaming
  • Movie
  • Music
  • Sports
  • Fashion
  • Lifestyle
  • Travel
  • Tech
  • Health
  • Food

© 2024 Raufklasra.com

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In