(نیویارک میں مقیم سات سال کے بچے سے بات چیت)
کورونا کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہماری روح ریحان (سندھی میں مجلس الارواح۔ سندھی میں ن کی آواز میں ڑ کی آواز شامل ہوتی ہے) کئی مرتبہ ہو جاتی ہے۔
عام دنوں میں ہمارے نواسے ریان ہمارے ہاتھ پاکستانی وقت کے مطابق صبح چار بجے لگتے ہیں۔ نیویارک میں یہ ان کا اسٹوری ٹائم ہوتا ہے۔ اللہ نظر بد سے بچائے اب آٹھواں برس لگے گا۔ ان کی والدہ یعنی اپنی بیٹی کو ہم نے کہا کہ اس کی ہوم اسکولنگ کا بھی بندوبست کرو۔ تم تو ہسپتال میں مریض دیکھ رہی ہوتی ہو۔ کہنے لگیں اپنی نانی سے حاصل کردہ تربیت کا آن لائن قرض آپ اتار دیں۔ چھ نسلیں ایک لڑی میں پرو دیں۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں ڈاکٹر کسی کو کوئی علاج تجویز کرے تو مریض خود اسی کو دوائی پینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ پدماوتی کے موہے رنگ دو لال نند کے لعل کی ڈائریکشن میں ہیروئن دیپکا پڈوکون پلٹ کر ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کو کہے۔ سسرے ہم کو آنکھ مٹکانا سکھاتے ہو۔ نرت کے بھید بھاؤ کا اتنا ہی پتہ ہے تو اپنی فلم میں خود ہی ناچ لو۔ میں گھر جارہی ہوں۔ شوٹنگ پیک۔
یہی سبب ہے کہ جنرل کیانی کے بیربل ہارون الرشید، بے خوف عبدالمالک، سمجھدار ارشد شریف اور ہمارے دوست کلاسرا صاحب کا دل وزیر اعظم کی نشستوں سے اوب گیا ہے۔ ان سے کوئی گیان بدھی کی بات کرو تو سامنے سے جواب ملتا ہے کہ پھر آپ کو وزیر اعظم بنا دیں۔ آپ ملک سنبھال لیں۔ گورنر اسٹیٹ بنک باقر رضا کی جگہ سہیل وڑائچ کو لگا دیتے ہیں۔ وہ بھی لاہور کی اسٹیج اداکاراؤں کی آمدنی کا خوب حساب رکھتے ہیں۔
ریان میاں کو امریکہ کی تاریخ اور ان کے صدور کا ایسے علم ہے کہ اوباما، ہلری ٹرمپ کو یا ان کی صاحبزادی ایونکا کو ملاکر بھی نہیں ہو گا۔ ترتیب سے ان کی معیاد صدارت اور اہم واقعات کے ساتھ۔ معلومات کا یہی عالم کچھ دنوں پہلے تک نیویارک کی ریلوے کے بارے میں تھا۔ دنیا کے بے حد Iconic اور سب سے بڑے اسٹیشن گرانڈ سنٹرل پر ان کے ساتھ جانا دوبھر ہوتا تھا۔ ہمیں دو گھنٹے پہلے بھجوادیا جاتا تھا کہ اسے گھماپھرا لیں۔ب اہر مین ہٹن کی دنیا بھی بہت رنگین اور پرفریب ہے مگر ریان میاں کا کہنا ہوتا تھا Nana this is ultimate ۔ ہم نے بہت آہستگی سے ان کا رخ ریل سے لائبریری، پیانو اور جوڈو کی طرف موڑا حالانکہ وہ آئس ہاکی اور ایر کرافٹس کی جانب جانا چاہتے تھے۔
لائبریری سے لگاوٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسکول جاتے ہیں تو ان کی فرشتہ خصال سکھ آیا کے ساتھ ان کے پونے دو سال کے بھائی ترحان بھی ہوتے ہیں۔ آیا چھوٹے بھائی کو اسکول کے سامنے پبلک لائبریری میں کمپیوٹر کے سامنے بٹھا دیتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں ایتھے سٹ ۔لے پو (لیپ ٹاپ)۔ یو کم اوکے۔ تو آیا بھی اپنی شیخ رشید جیسی پٹیالہ انگریزی میں کہتی ہے
Puttar. Yes me come. Play with computer. No hit screen. See Auntie.You need call auntie
لائبریری کلرک وقفے وقفے سے اسے کچھ نہ کچھ کھانے کو دیتی رہتی ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ چھوٹے سے بچے نے کیا ایک پورا کمپیوٹر انگیج کیا ہوا ہے۔ ترحان میاں لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ ایسی مہارت سے چلاتے ہیں جیسے ہماری اسٹیبلشمنٹ عدلیہ اور اسمبلی کو چلاتی ہے۔ انگلی پکڑ کر، میٹھے میٹھے سروں میں ندیا دھیرے بہو گا گا کر۔
کل ہماری ریان میاں سے بات ہوتی تھی تو ویسے ہی پریشان تھے جیسے چند ماہ قبل اسکول میں ٹائی ٹینک کی بربادی پر (ڈاکیومنٹری (اصلی والی فلم دیکھ کر تو ہم بھی تصویر کشی والے so very serious کا مکالمہ سن کر ہوئے تھے) دیکھ کر ہوئے تھے۔ بولتے ہی نہ تھے کہ کیا بات بہت بری لگی ہے۔ بہت سمجھایا تو پہلو میں بیٹھی والدہ صاحبہ کی طرف دیکھ کر کہنے لگے نانا کپتان ایڈورڈ سمتھ نے آغاز سفر میں اتنی بری بات کی کہ ٹائی ٹینک کو ضرور برباد ہونا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ کپتان کم بخت نے ایسا کیا کہہ دیا کہ تمہاری گھگھی بندھی ہوئی ہے۔ کہنے لگے
This moron had bragged that Titanic is a ship which )even God can not destroy
(اس بے ہودہ انسان نے کہا تھا کہ ٹائی ٹینک اتنا بڑا جہاز ہے کہ اللہ بھی اس کو برباد نہیں کر سکتا)۔
کل کی پریشانی کا آغاز یوں کیا کہ ایک ماں باپ، ایک نانا نانی میری دادی اور ہم تین بھائی ہیں ۔۔۔ کل آٹھ لوگ۔ آج کل دو گھنٹے کی آن لائن کلاس اور پندرہ منٹ کی قرآن کلاس کے بعد لاک ڈاؤن کی وجہ سے میرے پاس سوچنے کا بہت وقت ہوتا ہے۔ کورونا کی وجہ سے اماں بھی بہت الجھن میں ہے۔ بتا رہے تھے کہ اماں جی کے ہسپتال میں دن میں چھ لوگ مرجائیں تو سوال جواب ہوتے ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہیں زیادہ مریض تو داخل نہیں ہوئے۔ کلDeath Figure 36 تھی اور ٹرمپ کچھ نہیں کر رہا۔
بچوں اور بیوروکریٹس سے گفتگو میں کلام کے آغاز کا سرا آپ نے تھام کر رکھنا ہوتا ہے۔ وہ سب کو اپنے جتنا ہشیار مان کر بات کرتے ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ اس میں ہم آٹھ لوگ کہاں سے آگئے۔ کہنے لگے پہلے میرے دماغ پر یہ رہتا تھا فلائنگ سیکھوں گا۔ کسی مالدار لڑکی سے شادی کروں گا، پھرمیں اپنی ایئر لائن بناؤں گا۔ اب کیا تبدیلی آ گئی ہے۔ میں نے ایک بات آپ کی مانی ہے اور ایک نانی کی یعنی یور بیوٹی فل وائف اور ایک اپنی اماں جان یعنی آپ کی بیٹی ایونکا دیوان کی۔ آپ کی بات یہ مانی ہے کہ امریکہ میں کون کب کتنے دنوں کے لیے صدر رہا یہ گاربیج انفارمیشن ہے So no more history time۔ نانی کی یہ بات مانی کہ کورونا کا سبق یہ ہے کہ ” They make plans and Allah makes plans. But Allah’s plans are the best.””
نانی کی بات سمجھ آئی۔ کہنے لگے ہاں کہنے کو چھوٹا سا وائرس ہے مگر ہمارا ایئرکرافٹ کیریر روزویلٹ زیرو چلانے والوں کی ناک میں دم آگیا ہے۔ہم نے بتایا کہ جس Capt. Brett Crozier,نے وائرس وارننگ جاری کی تھی اس سے بھی کمانڈ واپس لے لی ہے۔ نانو کہہ رہی تھیں کہ یہ طیارہ برادر بحری جہاز فلوٹنگ وار مشین ہیں۔ امی کی یہ بات مانی ہے کہ میں ہارٹ سرجن بنوں۔ وہ کہتی ہیں میرے جس طرح کے گرینڈ پلان ہیں مجھے آپ سب کو سنبھالنے کے لیے بہت سارے ڈالرز درکار ہوں گے۔
ہم نے Parentingکا اہم سبق یہ سیکھا ہے کہ آپ اپنے بچوں کی چھوٹی سی چھوٹی بات دھیان اور اور لگاؤ سے سنیں۔ انہیں سمجھائیں۔ جب وہ بڑے ہوجاتے ہیں تو اس عادت کے کارن آپ کو بڑی بات بھی چھوٹی سمجھ کر بتا دیتے ہیں۔ ریان میاں کا سوال تھا کہ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اتنے سارے پیسے کہاں رکھیں گے۔ ہم نے کہا In the heart where you keep your faith. کہنے لگے بابا کہتے ہیں دل میں صرف اللہ کو رکھنا چاہیے۔ ہم نے کہا ایکزیکٹ لی۔ پھر پیسے ہاتھ میں رکھو اور اللہ کو دل میں۔
کہنے لگےthat I wonder Nana! Sometimes you talk so weird
why my Nano married you.
(نانا کبھی کبھار آپ اتنی عجیب باتیں کرتے ہیں کہ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میری نانی نے آپ سے شادی کیوں کی)
She was smart.She wanted us to talk on line while she is fast asleep.
(وہ ذہین تھیں۔ ؤ وہ چاہتی تھیں کہ جب ہم آن لائن باتیں کریں تو وہ سکون سے نیند کر لیں)
Intelligent.Time for me to hit the bed see ya
(ذہین۔اچھا اب میرا بھی سونے کا وقت ہوگیا ہے۔ پھر ملیں گے) اللہ حافظ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد اقبال دیوان چار عدد کتب کے مصنف ہیں جسے رات لے اڑی ہوا، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا، پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ، دیوار گریہ کے آس پاس۔ پانچویں کتاب ”چارہ گر ہیں بے اثر“ ان دنوں ادارہ قوسین کے ہاں زیرطبع ہے۔ آپ کے کالمز وجود، دلیل،دیدبان اور مکالمہ پر شائع ہوتے رہے ہیں۔ آپ سابق بیورکریٹ ہیں.
کس کس جملے کی تعریف کی جائے؛
بچوں اور بیوروکریٹس سے گفتگو میں کلام کے آغاز کا سرا آپ نے تھام کر رکھنا ہوتا ہے۔ وہ سب کو اپنے جتنا ہشیار مان کر بات کرتے ہیں۔