یہ وہ ہفتہ تھا جب آخرکار اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کامیابی حاصل کی، ایک سال کے عرصے میں تین بے نتیجہ انتخابات کے بعد انہوں نے اپنے سخت حریف بینی گانٹز کو بھی حکومت میں شامل ہونے پر راضی کر لیا۔
ابھی کچھ امور پر کام کرنا باقی تھا، جیسے مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کا الحاق کس طرح کرنا ہے اور وزارت انصاف کی سربراہی کون کرے گا جو نیتن یاہو کے بدعنوانی کے مقدمے کی نگرانی کرے گی۔
اکنامسٹ میں شائع اس رپورٹ کے مطابق گینٹز کی بلواینڈ وائٹ پارٹی پہلے ہی منقسم ہے، اسکے تقریبا نصف نمائندوں نے اتحادی معاہدے کی حمایت کی ہے جسکے تحت نیتن یاہو ستمبر 2021 تک اپنے عہدے پر رہیں گے اور اس کے بعد یہ منصب گینٹز کے حوالے کردیں گے۔
لیکن افسوس کہ کورونا وائرس راستے میں حائل ہو گیا ہے۔ مارچ 30 کو نیتن یاہو نے ایک معاون کو کورونا ہونے کے باعث خود کو الگ تھلگ کر لیا۔ بعض ازاں وہ قرنطینہ سے باہر آ گئے لیکن وزیر صحت میں یکم اپریل کو کورانا کی تصدیق ہونے کے بعد انہوں نے خود کو دوبارہ الگ تھلگ کر لیا۔ ان کے معاون اور وزیر، دونوں شدید قسم کے راسخ العقیدہ (الٹرا آرتھوڈاکس) اشخاص ہیں۔
بھارت میں کورونا پھیلانے والے مذہبی رہنما کی ہلاکت کے بعد 40 ہزار افراد قرنطینہ میں داخل
کورونا وائرس اور مذاہب کا ردعمل
اسرائیل کا شہر بنی براک بھی راسخ العقیدہ افراد پر مشتمل ہے جو رقبہ کے لحاظ سے نویں نمبر پر ہے جبکہ کورونا کیسز رپورٹ ہونے کے لحاظ سے ملک میں دوسرے نمبر پر ہے۔
یروشلم کے شدید راسخ العقیدہ علاقوں میں بھی قریبی آبادی کی نسبت زیادہ وبا پھیلی ہے جس سے یہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کل آبادی کے 12 فیصد پر مشتمل اس کمیونٹی میں وبا زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔
کئی ہفتوں سے اسرائیل کے زیادہ تر علاقوں میں حکومت کے حکم پر میل جول سے دوری اختیار کی گئی لیکن راسخ العقیدہ کمیونٹی میں زندگی معمول کے مطابق چلتی رہی۔
اگرچہ 12 مارچ کو تمام تعلیمی ادارے بند ہوگئے مگر راسخ العقیدہ اسکولوں میں تورات اور تلمود کی تعلیمات چلتی رہیں۔ عبادت گاہوں میں اجتماعات ہوتے رہے اس سے قطع نظر کہ یہ جگہ وبا کا گڑھ تھی۔
صرف مارچ کے آخر میں مذہبی راہنماؤں نے، جن کا یہ نظریہ تھا کہ تورات انہیں بچائے گی، آخرکار اپنے پیروکاروں کو اجتماعی صورت میں عبادت کرنے سے روک دیا۔
دیگر عوامل نے معاملات مزید خراب کر دیے۔ مثال کے طور پر یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں نے اپنے الٹرا آرتھوڈاکس پیروکاروں کو ٹیلی وژن اور ریڈیو سننے سے منع کر رکھا ہے۔ یہ موبائل رکھ سکتے ہیں لیکن انہیں انٹرنیٹ اور میسجز کی ایپلیکیشنز تک رسائی کی اجازت نہیں۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں طبی معلومات دیر سے پہنچیں۔ بہت سے لوگ حکومت کی جانب سے بھیجے گئے کوروبا وبا کے متعلق پیغامات وصول کرنے میں ناکام رہے۔
اس کے بعد آرتھوڈاکس افراد میں وبا کا پھیلاؤ اتنا مشکل نہیں تھا۔ ان کا رجحان خاندان کو بڑھانے کی طرف ہے اور یہ بڑے خاندان اکثر تنگ کوارٹرز میں رہتے ہیں۔
بینی براک اسرائیل کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے جہاں 27 ہزار افراد ہر اسکوئر کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں اور آبادی کا یہ حجم تل ابیب کی تین آبادیوں کے برابر ہے۔
وزیراعظم نیتن یاہو جو انتہائی راسخ العقیدہ گروہوں کے تعاون پر بھروسہ کرتے ہیں عبادتگاہوں کو بند کرنے پر تذبذب کا شکار تھے۔ پولیس اسی وقت ان علاقوں میں گئی جب مذہبی پیشواؤں نے باجماعت عبادات پر خود پابندی لگائی۔
یکم اپریل کو وزیراعظم نے مذکورہ شہر میں داخلی و خارجی نقل و حرمت پر پابندی عائد کی مگر کچھ افراد حکومت کے احکامات کو نظرانداز کر رہے ہیں، عبادات کر رہے ہیں اور ہالز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
دہائیوں تک انتہائی راسخ العقیدہ طبقے کو اپنے معاملات حکومت کی فنڈنگ سے خود چلانے کی چھوٹ حاصل ہے، زیادہ تر افراد فوج میں ہیں اور نہ ہی کوئی کام کرتے ہیں، کئی اسرائیلی اس بات پر حکومت سے شاکی ہیں۔
چونکہ انتہا پسند یہودیوں نے قلت کا شکار طبی سامان استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اس لیے اسرائیلی سماج میں ان ی منفرد حیثیت کے بارے میں مزید سوالات جنم لیں گے۔
(یہ رپورٹ اکنامسٹ میں شائع ہوئی ہے)