پاکستان اسٹیل ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سفارشات پر وزارت صنعت و پیداوار 9 ہزار 350 ملازمین کی خدمات ختم کرنے کے اپنے منصوبے پر نظرثانی کر رہی ہے۔
پاکستان اسٹیل ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین عامر ممتاز کو وزارت صنعت و پیداوار کے آفس کی راہداری میں جمعرات کو دیکھا گیا جہاں وہ ایک پیپر ہاتھ میں تھامے ہوئے وزیر اور سیکرٹری کے دفتر کا دورہ کر رہے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں ملازمین کو کم کرنے کے حوالے سے منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں پیش کرنے سے قبل اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے وازرت خزانہ کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
ملازمین میں کمی کے منصوبے پر عملدرآمد کے لیے پاکستان اسٹیل مل کی انتظامیہ نے وزارت صنعت و پیداوار کے ذریعے وزارت خزانہ سے تقریباً 20 ارب روپے کی رقم مانگ لی ہے۔
مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی سربراہی میں 13 مئی 2020 کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں اس منصوبے پر بحث ہوئی جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا، وزارت خزانہ کا موقف تھا کہ اس منصوبے کو لازمی طور پر پہلے وزارت صنعت و پیداوار کے ساتھ شیئر کیا جائے اور سوال اٹھایا کہ آیا یہ رقم اس وقت ادا کی جانی ہے جب ملازمین میں کمی کا مرحلہ شروع ہو گا یا پھر اس وقت جب قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
بزنس ریکارڈر میں شائع خبر کے مطابق وزارت صنعت و پیداوار نے اپنی سمری میں بتایا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے مالی حالات خراب ہونے کی وجہ سے حکومت پاکستان 2013 سے اسٹیل مل کے ملازمین کو خالص ماہانہ تنخواہیں دے رہی ہے۔
پاکستان اسٹیل مل نے جون 2015 میں اپنے 14 ہزار 753 ملازمین کے لیے کوئی ہیومین ریسورس پلان تشکیل دیے بغیر آپریشن بند کر دیا تھا۔
پاکستان اسٹیل مل کے ملازمین کی تعداد کم ہو کر 9 ہزار 350 ہو گئی ہے جنہیں اس وقت حکومت کی جانب سے تقریباً 35 کروڑ روپے ماہانہ تنخواہوں کی مد میں دیا جا رہا ہے۔
سمری کے مطابق حکومت پاکستان نجکاری کے ذریعے اسٹیل مل کی تعمیر نو کرنا چاہتی ہے لیکن عمر رسیدہ افراد پر مشتمل انسانی وسائل اس کی تجدید میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
ایک حالیہ پیش رفت میں سپریم کورٹ نے سول درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے ہدایت کی کہ نہ تو اسٹیل مل چل رہی ہے اور نہ ہی کچھ پیدا کر رہی ہے تو کیوں ان ملازمین کو رکھا جا رہا ہے اور کیسے ان کو نقد رقم اور دیگر فوائد کی مد میں ادائیگیاں کی جا رہی ہیں؟
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ان سب معاملات کو وفاقی حکومت فوری طور پر دیکھے اور خاص طور پر سیکریٹری برائے صنعت و پیداوار ان معاملات کو حل کریں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اسٹیل مل بورڈ نے پاکستان اسٹیل ورک فورس کے لئے 15 اپریل کو ایک ہیومین ریسورس ریشنلائزیشن پلان کی منظوری دی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکریٹری برائے صنعت و پیداوار نے اسٹیل مل کی انتظامیہ کو یہ مسائل حل کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرنے کا کہا، اس سلسلے میں غیر مطلوب، ناپسندیدہ اور خراب رویہ رکھنے والے ملازمین کو فارغ کرنے کا منصوبہ تیار کر کے ای سی سی کو بھجوا دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت افرادی قوت کا حجم کم کرنا چاہتی ہے تاکہ صرف اہم اور ضروری کام کرنے والوں کو ہی برقرار رکھا جائے۔
وزیر ریلوے شیخ رشید نے اجلاس میں بحث کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسٹیل مل کے تمام ملازمین کو فارغ کر دیا جائے کیونکہ بہت سارے دوسری جگہوں پر ملازمت کر رہے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان اسٹیل مل سے تنخواہیں بھی لے رہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل مل بورڈ کے چیئرمین عامر ممتاز نے وزیر کو یقین دہانی کرائی کہ سب ملازمین کو فارغ کر دیا جائے گا۔
نجکاری کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ ملازمین کو فارغ کرنے سے پہلے پاکستان اسٹیل مل کو طریقہ کار وضع کرنا ہو گا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کے نظریہ کو غیر شفافیت کی وجہ سے ڈراپ کر دیا گیا کیونکہ ایک مقامی کاروباری شخصیت جس کی پی ایس ایل میں کرکٹ ٹیم بھی تھی مبینہ طور پر اپنے اثرورسوخ سے چینی اور کورین کمپنیوں کو حکومت کے ساتھ شامل کرنا چاہتا تھا۔
حکومت نے اصولی فیصلہ کیا ہے کہ اسٹیل مل کی تعمیر نو کا کام نجکاری کمیشن قانون کے مطابق کرے گا۔ تاہم ایک شخصیت وزارت صنعت و پیداوار کے دفتر میں دیکھی گئی جو وفاقی وزیر حماد اظہر سے ملنا اور انہیں بریف کرنا چاہتی تھی، اطلاعات کے مطابق یہ ایک روسی کمپنی کا نمائندہ ہے جو پاکستان اسٹیل مل کی تعمیر نو کے منصوبے میں حصہ لینے میں دلچسپی رکھتی ہے۔