سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے ملک بھر میں شاپنگ مالز ہفتہ اور اتوار کو کھولنے کا حکم عید کے تناظر میں تھا اور عید کے بعد صورتحال کا جائزہ لیں گے جبکہ عدالت اس بات سے آگاہ ہے کہ کورونا ملک میں موجود ہے اور لوگ اس سے بڑی تعداد میں متاثر ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے سرکاری طور پر کرائے جانے والے کورونا ٹیسٹوں کے معیار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
تاہم اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کل کے حکم سے لوگ سمجھ رہے ہیں کورونا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے اور عدالت کے حکم کے باعث انتظامیہ کو اقدامات کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، اس لیے ریمارکس اور فیصلے دیتے ہوئے معاملے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھاجائے۔
عدالت نے وفاق اور صوبائی حکومتوں سے پیشرفت رپورٹس طلب کرتے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ سینٹری ورکرز کو حفاظتی سامان اور تنخواہیں فراہم کی جائیں۔
سماعت کا احوال
منگل کے روز چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کورونا وبا کے دوران حکومت کے ناقص اقدامات پر سو موٹو کیس کی سماعت کا دوبارہ سے آغاز کیا تو اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی کہ عدالت کے حکم پر چئیرمین این ڈی ایم اے عدالت میں حاضر ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ہمارا مسئلہ اخراجات کا نہیں ہے، ہم لوگوں کو بہتر سروس دلانا چاہتے ہیں، عدالت نے سرکاری طور پر کورونا ٹیسٹوں کے معیار پر بھی سوال اٹھائے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سرکاری لیبارٹریز میں ٹیسٹ مثبت آتے ہیں اور نجی کلینک سے وہ منفی ہوتے ہیں، مریض کو بھی حتمی طور پر یہ علم نہیں ہوتا وہ کورونا وائرس کا شکار ہے یا نہیں، لاہور میں چار افراد کا سرکاری کورونا ٹیسٹ مثبت آیا اور پرائیویٹ لیب سے کورونا ٹیسٹ منفی بتایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں بھی ایسا ہی ہوا، لواحقین چلاتے رہتے ہیں انکے مریض کو کورونا مرض لاحق نہیں ہے، ایک کلپ دیکھا ایک شخص رو رہا تھا کہ اسکی بیوی کو کورونا نہیں ہے، لاہور ایکسپو سینٹر اور اسلام آباد میں کئی قرنطینہ سینٹرز سے لوگوں کی ویڈیوز دیکھنے کو مل رہی ہیں، لوگ غصے میں کہہ رہے ہیں کہ باہر مر جاؤ لیکن پاکستان نہ آؤ، 10 ،10 لوگ قرنطینہ سینٹر میں ایک ساتھ بیٹھے ہیں، یہ کیسا قرنطینہ ہے؟ ان قرنطینہ سینٹرز میں کوئی صفائی کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ڈاکٹرز اور طبی عملے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اور طبی عملے کو سلام پیش کرتے ہیں لیکن ان میں جو خراب لوگ ہیں وہ تشویش کا باعث ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہر چیز پیسہ نہیں ہوتی، پیسوں کیلئے کھیل نہ کھیلیں، پیسہ اہم نہیں ہے بلکہ انسان اہم ہیں، پاکستان کی معیشت کا موازنہ افغانستان، صومالیہ، یمن کے ساتھ کیا جاتا ہے، پاکستان غریب سے غریب ترین قوم ہے، اس طرف کسی کا دھیان نہیں، عمومی تاثر ہے کہ وسائل غیرمتعلقہ افراد کے ہاتھوں میں ہے۔
چیف جسٹس نے چئیرمین این ڈی ایم اے سے ڈیسٹو پاکستان نامی فرم کی ملکیت کے بارے میں بھی استفسار کیا اور پوچھا کہ یہ فرم کسی پرائیویٹ آرمی پرسنل کی ہے یا پاکستان آرمی کی ہے؟ جو مشین آپ باہر سے منگوا رہے تھے وہ کسی پرائیویٹ آدمی کو بھی منگوانے دیتے؟
چئیرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ پرائیویٹ لوگ بھی مشینیں اور سامان منگوا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہر چیز چین سے منگوائی جا رہی ہے، ہمارے لوگ چین سے آ خری معیار کی چیز بنواتے ہیں جو دس کا لے کر 1000 کا یہاں بیچتے ہیں، امریکہ سمیت دیگر ممالک میں چیزوں کی خریداری کا ایک معیار رکھا جاتا ہے، امریکہ میں کھلونے کے رنگ کو بھی چیک کیا جاتا ہے کہ اس سے بچے کو الرجی تو نہیں ہو گی، یہاں سب کچھ بارڈر سے بغیر چیکنگ آ جاتا ہے۔
چئیرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ ہمارے تعاون سے ملک میں دس لاکھ پی پی ایز بن رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ ملکی پیداوار کا ہے تاکہ ریونیو بنے اور نوکریاں ملیں، پاکستان میں ہر کمپنی ، ادارہ بند ہو رہا ہے، ہم صومالیہ کی طرف جا رہے ہیں لیکن بادشاہوں کی طرح رہ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی ساری توجہ شہروں پر ہے، دیہاتوں میں کوئی نہیں جا رہا، کورونا پر دیہاتوں میں آج بھی لوگ دم کرا رہے ہیں، حاجی کیمپ قرنطینہ پر 56 کروڑ خرچ کر دئیے گئے، خرچے کے باوجود قرنطینہ سینٹر تو نہ بن سکا چلو حاجیوں کی بہتری ہوجائے گی، قرنطینہ میں جانے والا بغیر پیسے دئیے باہر نہیں نکل سکتا۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے عدالت کو بتایا کہ ادارہ دیگر اداروں کو بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے عدالت کو مزید آگاہ کیا کہ 20 اپریل کے بعد سے ہم نے ملکی پیداوار میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے، ملک میں اس وقت ماہانہ دس لاکھ کٹس تیار کی جا رہی ہیں، ضرورت سے زائد کٹس کو ایکسپورٹ کرنے کی طرف جا رہے ہیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے ریمارکس سے عوام سمجھ رہے ہیں کہ کورونا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے ٹی وی پر سنا کہ ایک شخص کہ رہا تھا کہ صبح کے وقت طارق روڈ پر پارکنگ نہیں مل رہی تھی، اس وقت تک ہم نے نہ کوئی آرڈر اور نہ کوئی ریمارکس دیئے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ بازاروں میں رش چیف جسٹس کی وجہ سے لگ گیا ہے، عوام سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ لاک ڈاؤن پہلے جیسا موثر نہیں رہا، بیوٹی سیلون اور نائی کی دکانیں کھل رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہماری وجہ سے نہیں کھل رہے، آپ کے انسپکٹر پیسے لے کر اجازت دے رہے ہیں، عدالت نے سندھ حکومت کو کچھ نہیں کہا، سندھ حکومت نے تمام سرکاری دفاتر کھول دئیے ہیں، سب رجسٹرار کا آفس آپ نے کھول دیا ہے، بڑی کرپشن کا ادارہ سب رجسٹرار آفس ہے، کرپشن کی تمام میٹنگ سب رجسٹرار آفس میں ہوتی ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 8 جون تک ملتوی کردی۔
