جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اس پر تبصرے جاری ہیں، ابتدائی جذبات ٹھنڈے پڑنے کے بعد اب قانونی پہلوؤں سے اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور مختلف قسم کی آرا سامنے آ رہی ہیں۔
وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل (پی بی سی) بھی اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ فریق تھی، ابتدا میں انہوں نے مقدمے کوتاریخی قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا تاہم ایک روز بعد اس پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا امکان ظاہر کر دیا۔
جسٹس عیسیٰ کیس کا فیصلہ، تین جج صاحبان نے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار
سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینج نے جب فیصلہ سنایا تو پی سی بی نے فوری طور پر 22 جون کو یوم تشکر منانے کا اعلان کر دیا جس کا مقصد قانون کی حکمرانی، آئین کی پاسداری اور عدلیہ کی آزادی پر اظہار تشکر کرنا تھا۔
تاہم ہفتے کے روز ڈان اخبار سے بات کرتے ہوئے پی سی بی کے چیئرمین عابد ساقی نے کہا کہ کونسل کے اراکین کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد پی سی بی نے فیصلے کے پیرا 9 کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ہم عدالتی حکم کے اس حصے کے متعلق سخت تحفظات رکھتے ہیں اور اسے غیرمنطقی سمجھتے ہیں۔
یاد رہے کہ پیراگراف 9 میں 7 جج صاحبان نے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کو حکم دیا تھا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کر کے اس کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹری کو پیش کریں، باقی تین جج صاحبان نے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
عدالت نے حکم دیا تھا کہ ایف بی آر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ کو ہر پراپرٹی کا الگ سے نوٹس جاری کرے۔ عدالت نے مزید احکامات دیے ہیں کہ ایف بی آر کے نوٹس جج کی سرکاری رہائش گاہ پر ارسال کیے جائیں جبکہ نوٹس میں جج کی اہلیہ اور بچے فریقین ہوں گے۔
اکثریت کے مختصر فیصلے میں احکامات دیے گئے تھے کہ کمشنر ان لینڈ ریوینیو 30 روز میں کارروائی پر فیصلہ جاری کرے گا جس کے بعد چئیرمین ایف بی آر فیصلے پر مبنی رپورٹ 7 روز کے اندر سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو پیش کرے گا۔
عدالت نے حکم دیا تھا کہ ایف بی آر حکام معاملے پر التواء بھی نہ دیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر قانون کے مطابق کارروائی بنتی ہو تو جوڈیشل کونسل کارروائی کی مجاز ہوگی۔
10 رکنی فل کورٹ بینچ کی سربراہی جسٹس عمر عطا بندیال نے کی۔ درخواست 10 ماہ تک ملتوی رہی اور اس پر تقریباً 46 سماعتیں ہوئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ وکلاء کی تنظیموں نے بھی صدارتی ریفرنس چیلنج کر رکھا تھا۔