لاہور ہائیکورٹ میں موٹروے پر خاتون زیادتی کیس کی عدالتی تحقیقات کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ہائیکورٹ قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ سی سی پی او کے بیان پر پوری پنجاب کابینہ کو معافی مانگنی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ معافی مانگتی تو قوم کی بچیوں کو حوصلہ ہوتا لیکن الٹا پنجاب حکومت کے وزرا سی سی پی او کو بچانے میں لگ گئے، لگتا ہے سی سی پی او لاہور وزرا کا افسر ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے سی سی پی او عمر شیخ کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تو وہ بھی لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے۔
پنجاب حکومت نے عدالت میں موٹروے زیادتی کیس کے لیے کمیٹی بنانے کا نوٹفکیشن پیش کیا گیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ نوٹفکیشن کس قانون کے تحت بنایا گیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر کمیٹی کمیٹی نہیں کھیلا جا سکتا۔
سی سی پی او لاہور نے عدالت کو بتایا کہ 3 بج کر 5 منٹ پر واقعہ کی رپورٹ ملی اور ہم 3 بج کر 25 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خاتون نے پہلی کال کسے کی تھی تو سرکاری وکیل نے بتایا کہ خاتون کو ون فائیو پر کال کرنے کا کہا گیا تھا۔ موٹروے حوالے کرنے کے بعد فورس تعینات نہیں کی گئی تھی۔
چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل نے بتایا کہ موٹروے دو ماہ قبل حوالے کی گئی تھی، چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ میں تمام آئی جیز کو طلب کر رہا ہوں۔
سی سی پی او لاہور نے عدالت کو بتایا کہ رنگ روڈ ہمارے دائرہ کار میں آتی ہے مگر اداروں کے درمیان آپسی لڑائی چل رہی ہے جس کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بچی نے 130 پر کال کی تو انہوں نے ایف ڈبلیو کو کانفرنس کال ملا دی، خاتون کو ون فائیو پر کال کرنی چاہیے تھی، اب اس بیان پر ایک بار پھر میرے اوپر الزام لگا دیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بچی کو ون فائیو پر کال کیوں کرنی چاہیے تھی؟ یہ کام 130 والوں کو کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ڈولفن فورس کس وقت پہنچی اور انہوں نے کیا دیکھا؟
سی سی پی او نے عدالت کو بتایا کہ ڈولفن فورس 20 منٹ میں موقعہ پر پہنچ گئی، انہوں نے ہوائی فائر کیے تو خاتون نے آواز دی، اہلکار وہاں پہنچے تو ایک بچی، دو بچے اور خاتون موجود تھی۔
انہوں نے بتایا کہ تمام افراد کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا، خاتون کی رضامندی سے ڈی این اے کے نمونے لیے گئے اور ان کے بتائے ہوئے حلیے والے ملزمان کی تلاش میں اس علاقے سے ملحقہ گاؤں میں فوری سرچ شروع کر دی گئی۔
انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کو مزید بتایا کہ 53 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا جبکہ جیو فینسنگ بھی کرائی گئی، خاتون سے ملنے والا ڈی این اے ہمارے ریکارڈ سے میچ کر گیا۔
عمر شیخ نے بتایا کہ مرکزی ملزم عابد علی کی پہچان کے بعد اس کی سمیں چیک کی گئیں۔
انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کی اور کہا کہ ہمیں کیس میں کامیابی مل گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے واقعات پر حکومتوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
سی سی پی او نے عدالت سے کہا کہ میں لاہور کو 3 ماہ میں ٹھیک کر دوں گا، مجھے علم ہے کہ نظام میں کیا خرابیاں ہیں اور انہیں کیسے درست کرنا ہے، آپ مجھے 3 ماہ بعد بلا لیجیے گا میں رپورٹ پیش کر دوں گا۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر عدالت نے واقعہ کے متعلق کمیٹی کا نوٹفکیشن طلب کیا اور سوال پوچھا کہ کس قانون کے تحت جوڈیشل کمیشن بنایا جا سکتا ہے؟
درخواست گزار نے انکوائری ٹریبونلز آرڈیننس کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ فیس بک پوسٹ لگانے کے لیے پٹیشن دائر نہ کیا کریں بلکہ قانون بھی پڑھ لیا کریں، کسی کو خراب کرنے کے لیے پٹیشن دائر نہ کریں۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس واقعہ پر کمیٹی کمیٹی کھیل رہی ہے اور موقع پر تصاویر کھنچوائی جا رہی ہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ وزیرقانون کس طرح کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں کیا انہیں تفتیش کا تجربہ ہے؟
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق سب کچھ ہونا چاہئے، کوئی ماورائے قانون بات نہیں ہونی چاہئے، ماورائےعدالت قتل نہیں ہونا چاہیے، حکومت کی ذمہ داری ہے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ وہ خاتون اوربچے ساری زندگی کس قرب میں رہیں گے آپ کو اندازہ ہے؟
عدالت نے آئی جی پنجاب انعام غنی سے تمام شاہراہوں پر سکیورٹی کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ سینئر افسران روزانہ 2 گھنٹے پٹرولنگ کریں، یہاں پولیس افسر گھر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں اور وائرلیس کر دیتے ہیں۔
سی سی پی او عمر شیخ نے کہا کہ خدا کی قسم پولیس کو سزائیں دیں تاکہ ہم ٹھیک رہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب معافی دینے کا وقت گیا، سب کو پکڑیں گے۔
بعد ازاں موٹروے پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے درخواست کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔