قومی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی میں سابق آئی جی شعیب دستگیر پیش ہوئے ان کے خلاف رکن قومی اسمبلی رمیش لال نے تحریک استحقاق پیش کی تھی۔
تفصیلات کے مطابق سابق آئی جی اور موجودہ سیکرٹری نارکوٹکس شعیب دستگیر نے کمیٹی کو بتایا کہ رمیش لال زیارتوں پر آئے ہوئے تھے ان کا کوئی سرکاری دورہ نہیں تھا اس لیے یہ استحقاق کا معاملہ بنتا ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ساری بات سننے اور سمجھانے کے بعد صاف کہہ دیا تھا کہ ہم سیکیورٹی کے لیے افراد فراہم نہیں کر سکتے۔
شعیب دستگیر نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے معزز رکن اسمبلی سے پوچھا تھا کہ اگر آپ کو کوئی خطرہ ہے یا سندھ سے کوئی لیٹر بھجوایا گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ کوئی لیٹر نہیں بھجوایا گیا ہے جس پر میں نے شکریہ ادا کیا اور فون رکھ دیا۔
رکن قومی اسمبلی رامیش لال نے کہا کہ اس وقت کے آئی جی شعیب دستگیر نے کہا کہ مجھ سے کسی لیٹر کے بارے میں نہیں پوچھا گیا۔ یہ اس فلور پر غلط بیانی کر رہے ہیں۔
دوسرے ایجنڈے کے لیے بلائے گئے سندھ سے آئے ہوئے ڈی آئی جی عاصم قائمخانی سے پوچھا گیا کہ سندھ میں کیا طریقہ کار ہے جس پر انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی یا سینیٹ سے لیٹر آئے تو تحفظ کے لیے عملہ فراہم کرتے ہیں ورنہ نہیں۔
رکن کمیٹی جنید انوار نے کہا کہ رکن اسمبلی شاہدہ رحمانی اور شگفتہ جمانی کو دھمکیاں ملی تھیں۔ 12 ماہ کی کوشش کے بعد سیکیورٹی فراہم کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
رکن کمیٹی نواب وسیر نے کہا کہ میں نے کبھی سیکیورٹی نہیں لی۔ جب ایڈوائزر تھا تب بھی سیکیورٹی حاصل نہیں کی تھی۔ میں تو اکیلا پھرتا رہتا ہوں۔ سابق آئی جی پنجاب سے تو یہ گلہ رہتا تھا کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔
ارکان کمیٹی نے کہا کہ سابق آئی جی پنجاب سے ایک شکوہ یہ بھی رہتا ہے کہ ہنستے نہیں ہیں۔ نواب شیر وسیر نے رامیش لال سے گزارش کی کہ معاف کریں اور بات ختم کریں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ سیکورٹی کے حوالے سے ایس او پیز سپریم کورٹ کے حکم پر بنے ہوئے ہیں۔
نواب شیر وسیر نے کہا کہ سابق آئی جی خود آئے ہوئے ہیں انہوں نے کمیٹی اور معزز ممبر رمیش لال کو اہمیت دی ہے۔اب یہ معاملہ ختم کر دیں۔
تحریک استحقاق پیش کرنے والے رکن اسمبلی رامیش لال نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی بڑاسامنے ہو تو ہم خاموش ہو جاتے ہیں۔ پہلے یہ معاملہ 2ماہ تک قومی اسمبلی سے نہیں بھجوایا گیا تھا۔ چیئرمین کمیٹی قاسم نون کی مہربانی کہ انہوں نے یہ معاملہ ایجنڈے میں شامل کیا تھا۔
چیئرمین کمیٹی قاسم نون نے کہا کہ اب وہ آئی جی نہیں رہے، اب سیکرٹری نارکوٹکس ہیں۔
رکن کمیٹی سید غلام مصطفی شاہ نے کہا کہ ایس او پیز ہونے چاہیں۔ اگر افسران کے پاس ایس او پیز ہوں گے تو ان کے لیے بھی عمل کرنا آسان ہو جائے گا۔ ممبر رکن اسمبلی کو تکلیف ہوئی۔ ایک ہفتہ کا وقت دیں میں اور نواب شیر وسیر مل کر معاملہ حل کرا دیتے ہیں۔
تھوڑی دیر کے بعد سابق آئی جی، رامیش لال، نواب شیر وسیر اور سید غلام مصطفی شاہ کمیٹی سے باہر گئے اور واپس آ کر رامیش لال نے کہا کہ معاملہ حل ہو گیا اس لیے اب اس معاملے کو نمٹا دیا جائے۔ جس کے بعد کمیٹی نے معاملہ نمٹا دیا۔