نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے شہر آکلینڈ میں گزشتہ 10 روز میں کوئی کیس سامنے نا آنے کے بعد لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
16 لاکھ کی آبادی والے شہر میں مکمل طور پر لاک ڈاؤن ختم کیے جانے بعد شہریوں کو اجتماع اور سیر وتفریح پر جانے کی آزادی ہوگی اور وہ ایس او پیز کو فالو کیے بغیر گھروں سے نکل سکیں گے۔
کورونا وائرس: نیوزی لینڈ کے وزیر صحت ڈیوڈ کلارک عہدے سے فارغ
نیوزی لینڈ نے کن تین باتوں پر عمل کر کے کورونا کے خلاف فتح حاصل کی؟
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو کیفے میں داخل ہونے سے کیوں روک دیا گیا؟
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈن نے دوسری دفعہ کورونا وائرس کو شکست دینے کا اعلان کرتے ہوئے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا عندیہ دیا ۔
اس سے قبل وزیراعظم جیسنڈرا نے مئی میں کورونا کے خلاف فاتح ہونے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گزشتہ 3 ماہ سے مقامی سطح پر کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
وزیر اعظم کے اعلان کے لاک ڈاؤن ختم ہوئے عوامی مقامات کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ملک کو کورونا کی دوسری لہر کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب آک لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی گھر کے 4 افراد کورونا کا شکار ہوئے۔
چاروں افراد کو قرنطینہ منتقل کرنے کے فوراً بعد 200 ان افراد کی جانچ کی گئی جو ان افراد سے ملتے رہے ۔
اس واقعہ کے بعد کئی مشبہ کیس سامنے آئے جس کے بعد آکلینڈ سمیت کئی شہروں میں لاک ڈاؤن کردیا گیا تھا۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد کورونا کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ایسے میں نیوزی لینڈ کا کورونا کو شکست دینا دنیا بھر کے لیے ایک مثال ہے۔
بھارت میں بھی معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے بعد کورونا کی دوسری لہر نے تباہی مچا دی ہے۔
دوسری جانب امریکہ اور برازیل کے رہنما کورونا سے متاثر ہونے کے باوجود بیماری کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔
ماہرین صحت کے مطابق کورونا کے پھیلاؤ کی ایک وجہ عوام اور رہنماؤں کا یہ رویہ ہے۔