اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائر عیسٰی نے اپنے ذرائع آمدن اور ادا کردہ ٹیکسز کی تفصیلات پبلک کردیں۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائرعیسیٰ نے 3 سالوں میں 66 لاکھ 71 ہزار 722 روپے ٹیکس دیا جبکہ اس دوران ان کی آمدنی 5 کروڑ 34 لاکھ 97 ہزار 865 روپے رہی۔
اس سے قبل وویمن ایکشن فورم نے آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کی جائیدادوں کی تفصیلات مانگی تھیں، جس کے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ نے اپنی جائیداد اور بینکس اکاؤنٹس کی تفصیلات شیئر کیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ فیز 2 ڈی ایچ اے کراچی میں 2 آٹھ سو گز کے پلاٹ بطور وکیل خریدے، چار کروڑ 13 لاکھ 30 ہزار 8 سو 56 روپے بنک اکاؤنٹ میں ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ سال 2018 میں آمدنی 1 کروڑ 51 لاکھ 13 ہزار 9 سو 72 روپے تھی، سال 2018 میں 22 لاکھ 9 سو 16 روپے ٹیکس ادا کیا۔
سال 2019 میں آمدنی 1 کروڑ 39 لاکھ 9 سو 72 روپے تھی، جبکہ اس آمدن پر 17 لاکھ 92 ہزار 7 روپے ٹیکس ادا کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سال 2020 میں آمدن 2 کروڑ 12 لاکھ 37 ہزار 9 سو 21 روپے تھی، 26 لاکھ 78 ہزار 799 روپے ٹیکس ادا کیا۔
3 سال میں جسٹس فائز کی آمدن 5 کروڑ 35 لاکھ رہی، اس دوران 66 لاکھ 71 ہزار 722 روپے ٹیکس دیا۔
اس سے قبل جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کمشنر کی جانب سے جرمانے کے فیصلے کے خلاف کمشنر اسلام آباد کے آفس میں اپیل داخل کردی۔
ذرائع کے مطابق سرینہ عیسیٰ نے اپیل اپنے وکیل کے ذریعے کمشنراسلام آباد آفس میں داخل کرائی ہے۔
سرینہ عیسیٰ کی جانب سے لندن جائیدادوں پر ساڑھے 3 کروڑ جرمانے کے خلاف اپیل کی گئی ہے۔
14 ستمبر کو انہیں چئیرمین ایف بی آر ذوالفقار احمد کی جانب سے 164 صفحات پر مبنی حکم نامہ ارسال کیا گیا جس کے مطابق اُن پر ساڑھے تین کروڑ ٹیکس واجب الادا ہے۔
سرینہ عیسیٰ نے مزید کہا کہ انہیں علم نہیں کہ یہ حکم نامہ ایف بی آر نے واقعی خود لکھا ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تعیناتی سے قبل ہی چئیرمین ایف بی آر ذوالفقار دس مئی کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق متنازع بیان دے چکے ہیں۔
ان کے بقول: ‘مجھے ٹیکس نوٹس بھجوانے کا کوئی اُن کے پاس قانونی جواز نہیں تھا۔’