اسلام آباد: قومی اسمبلی کا اجلاس ایک مرتبہ پھر کورم کی نذر ہو گیا۔ حکومتی ارکان اسمبلی کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کی تو تعداد کم ہونے کے باعث اسپیکر اسد قیصر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑ گیا۔
اس سیشن میں اپوزیشن کی طرف سے بار بار کورم کی نشاندہی کی جاتی ہے اور کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کرنا پڑ رہا ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں تلاوت، حدیث، نعت اور قومی ترانہ کے بعد جب کارروائی شروع ہوئی تو سید نوید قمر نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت مانگی۔
اجازت ملنے پر سید نوید قمر نے کہا کہ جس طرح سے ایوان کی کارروائی چلائی جا رہی ہے یہ مناسب نہیں ہے، اس لیے ہم اپنی پارٹی اور اپوزیشن کی طرف سے احتجاجاً واک آؤٹ کرتے ہیں۔
مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا کہ ایوان کے کسٹوڈین کی تعظیم، تکریم اور آرڈر سے یہ ایوان چلے۔ احتجاج اپنی جگہ بجا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ آپ کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر چیئر کر رہے تھے۔ صرف اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ نہیں کیا گیا بلکہ جس کرسی کے سامنے ہم جھکتے ہیں اس پر کاغذ پھینکے گئے، ڈپٹی اسپیکر کے لیے سانس لینا مشکل ہو گیا تھا۔
بابر اعوان نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکر جو بھی میٹنگ بلائے اس میں شریک ہوں جو بھی اعتراضات کنڈکٹ آف بزنس پر ہیں ان کو اس میٹنگ میں بتائیں۔ آپ ایک سنجیدہ کال کریں۔
انہوں نے کہا کہ پہلی بار ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا بائیکاٹ کیا گیا ہے اور یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی پہلا واقعہ ہے کہ اسپیکر کی طرف انگلی اٹھائی گئی ہے حالانکہ ہم نے پچھلے اسپیکر بھی دیکھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ ایوان کے ڈیکورم اور رولز کا خیال رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جس کو جو بھی اعتراض ہے وہ میرے پاس آئے۔ ہم سب کو برابر کے مواقع فراہم کریں گے۔ اس طرح کی حرکتوں سے ہم سب کی بے حرمتی ہوتی ہے۔
شیخ فیاض الدین نے کہا کہ جس بند قبا کی بات کی جا رہی ہے وہ تو تار تار ہو چکی ہے۔ یہ خالی بینچوں کو سنا رہے ہیں، میں کورم کی نشاندہی کرتا ہوں۔
کورم کی نشاندہی پر جب گنتی کرائی گئی تو کورم پورا نہیں تھا جس پر اسپیکر نے اجلاس سوموار 5 بجے تک ملتوی کر دیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کو مسلسل سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ن لیگی دور حکومت میں حکومتی ایم این ایز اجلاس میں شرکت کرنا غیر ضروری سمجھتے رہے۔ اب وہی رویہ پی ٹی آئی ارکان اسمبلی نے اپنایا ہوا ہے۔
درجنوں کی تعداد میں وزراء اور مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی درجنوں خواتین ارکان اسمبلی کے باوجود قومی اسمبلی اجلاس میں کورم مکمل نہیں ہو پا رہا ہے۔
اگر مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی اور وزراء بھر پور شرکت کریں تو حکومت کو سبکی اور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
وزیر اعظم عمران خان خود تشریف لاتے ہیں نہ ہی ان کے وزراء پارلیمنٹ کو اہمیت دینے پر تیار ہو رہے ہیں۔
ن لیگی دور حکومت میں وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب ہر وزیر کے سوالوں کا جواب دے رہے ہوتے تھے اور تب اپوزیشن کی طرف سے انہیں ہر مرض کی دوا کا نام دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت میں ویسا ہی ماحول چل رہا ہے۔ علی محمد خان، مراد سعید کے علاوہ چند وزیر ہی اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔