جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف صدارتی ریفرنس کے متعلق دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ 224 صفحات پر مشتمل فیصلہ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔
فیصلے میں صدارتی ریفرنس نمبر ایک 2019 کو غیر قانونی قرار دیکر کالعدم قرار دیا گیا ہے تاہم اس میں لکھا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ قانونی حلقوں میں خاصے معزز سمجھے جاتے ہیں۔ ان پر الزام لگایا گیا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس داغ کو دھونے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ ایف بی آر میں اپنی جائیداد سے متعلق تمام دستاویزات جمع کرا دیں۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ شہزاد اکبر کی وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب کے طور پر تقرری بھی غیرقانونی نہیں ہے۔
جسٹس فیصل عرب اور جسٹس یحیٰ آفریدی نے فیصلے میں الگ نوٹ تحریر کیا ہے۔
تحریری فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس یحیٰی آفریدی نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو غیر آئینی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرنے میں ناکام رہے اس لیے ریفرنس دائر کرنے کا تمام عمل غیر قانونی اور غیر آئینی قرار پایا ہے۔
19 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس پر کاروائی روکنے کے لیے دائر آئینی درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 10 رکنی بینچ نے مختصر فیصلہ سنایا تھا۔
عدالتی فیصلے میں لکھا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی درخواستوں کو بدنیتی کے شواہد کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی قانونی شق نہیں کہ ججز کے خلاف ریفرنس کو خفیہ رکھنا چاہیے۔ جسٹس فائز عیسی کیخلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس نہیں لندن جائیدادوں کی بنیاد پر بنا۔
تحریری فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس یحیٰی آفریدی نے جسٹس فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کو غیر آئینی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرنے میں ناکام رہے اس لیے ریفرنس دائر کرنے کا تمام عمل غیر قانونی اور غیر آئینی قرار پایا ہے۔
تاہم جسٹس آفریدی نے لکھا کہ عدلیہ کی آزادی اتنی کمزور نہیں کہ اس طرح کی شکایات سے اسے نقصان پہنچ سکے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت نے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل سے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا، یہ دونوں حضرات ریفرنس بنانے کےعمل میں شامل ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ فیصلے سے لاعلم تھے، جسٹس فائز عیسیٰ نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ریفرنس کے نکات پڑھے تھے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ریفرنس نمبر ایک 2019 کو غیر قانونی قرار دیکر کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ درخواست گزار کو 17 اگست 2019 کو جاری نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔ فیصلے کے سات روز کے اندر ان لینڈ ریونیو کمشنر خود متعلقہ نوٹسز قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کو جاری کریں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نوٹسز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں سے برطانیہ میں خریدی جائیدادوں کے ذرائع آمدن پوچھے۔ یہ نوٹسز جسٹس قاضی فائز عیسی کی سرکاری رہائش گاہ پر بھیجے جائیں۔ ایف بی آر کے نوٹسز پر جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے متعلقہ تفصیلات پر جواب دیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ دستاویزی ریکارڈ کے ساتھ ایف بی آر کو جواب دیے جائیں،فیصلہ اگر کوئی ریکارڈ پاکستان سے باہر کا کہا ہے تو متعلقہ لوگوں کی زمہ داری ہے کہ بروقت فراہم کریں، انکم ٹیکس کمشنر اپنی کاروائی میں کسی موڑ پر التوا نہ دے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایک حاضر سروس جج کیخلاف انکوائری کرنا کونسل کا کام ہے نہ کہ کسی اور کا۔ کوئی بھی جج قانون سے بالاتر نہیں۔
فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ پبلک سرونٹ نہیں ہیں، انکی اہلیہ کیخلاف معاملہ جوڈیشل کونسل میں نہیں چل سکتا، صدر پاکستان نے ریفرنس دائر کرنے میں اپنے صوابدیدی اختیارات کا درست استعمال نہیں کیا۔
ریفرنس آئین اور قانون کے خلاف دائر کیا گیا، صرف یہ گراؤنڈ ہے ریفرنس کو خارج کرنے کی، عدلیہ کی آزادی اس کی خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں سے متاثر نہیں ہوتی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کی طرف سے سنائے گئے فیصلے پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ جبکہ جسٹس فیصل عرب نے الگ نوٹ تحریر کیا۔
جسٹس یحیی آفریدی نے لکھا کہ آزاد، غیر جانبدار عدلیہ کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کی اقدار میں شامل ہے۔ صدر آئین کے مطابق صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں ناکام رہے، صدارتی ریفرنس آئین و قانون کی خلاف ورزی تھی، ریفرنس داخل کرنے کا سارا عمل آئین و قانون کے خلاف تھا
یہ فوری خبر ہے، اسے اپڈیٹ کیا جا رہا ہے۔