پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو دنیا کے تیسرے بڑے شہر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے لیکن بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق کراچی ان شہروں میں شامل ہے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا بدترین نظام قائم ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کراچی کی خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ظاہر کرتی ہیں کہ میگا سٹی سیاسی طور پر یتیم ہو چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ صرف 42 فیصد مسافروں کو خدمت فراہم کرتی ہیں جبکہ بسیں کئی دہائیوں پرانی ہیں جس میں بے پناہ رش ہوتا ہے اور بعض اوقات تو مسافروں کو بسوں کی چھت پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کراچی میں گرین لائن بس منصوبے کا اعلان 6 سال پہلے ہوا تھا، اتنے سال گزرنے کے بعد وفاقی وزیر منصوبہ اسد عمر کہتے ہیں کہ اب یہ کام آئندہ سال جون کے آس پاس مکمل ہو جائے گا۔
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال سے متعلق حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
کوئینسی انسٹی ٹیوٹ اسٹیٹ کرافٹ کے ریسرچ فیلو ایڈم وین اسٹائن نے سرکلر ریلوے کے حوالے سے کہا کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بد عنوانی اور بد انتظامی نے اس شہر کو پیس کر رکھ دیا ہے۔
ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں مشورہ دینے والی میری لینڈ میں واقع بیتیسڈا کی کمپنی کے ایک مشیر ارسلان علی فہیم نے کراچی کے مسائل کے حوالے سے بتایا کہ وفاقی حکومت محدود اختیار رکھتی ہے جبکہ شہری حکومت صرف ایک چوتھائی سے بھی کم حصے پر کنٹرول رکھتی ہے۔
یاد رہے کراچی میں ٹرانسپورٹ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے کئی برس میں متعدد بس منصوبوں کا اعلان کیا گیا لیکن یا تو وہ کبھی شروع نہیں ہو پائے یا کچھ عرصے سے زیادہ برقرار نہیں رہ سکے۔
کراچی کا ٹرانسپورٹیشن کا موجودہ نظام سفر کے طویل وقت، پرائیویٹ اورپیرا ٹرانزٹ طریقوں میں اضافے، ٹریفک کے کمزور انتظام اور پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے اس مقصد کیلئے ٹھیک قرار نہیں دیا جا سکتا۔